بنگلہ دیش میں سولر سیلز کی بڑھتی ہوئی مانگ
22 جولائی 2011بنگلہ دیش میں اس حوالے سے بھی کچھ منصوبے شروع کیے گئے ہیں، جن میں دیہی علاقوں میں ہائی ٹیک شمسی سیلز نصب کیے جا رہے ہیں۔ ان سیلز کی مدد سے بجلی سے سہولت سے محروم علاقوں کو روشنی فراہم کی جا رہی ہے۔ اس موضوع کی مناسبت سے جرمنی کے شہر بون میں کل سے ایک بین الاقوامی کانفرنس بھی جاری ہے۔
بنگلہ دیش میں شمسی توانائی کے کامیاب استعمال کی ایک مثال لوہاکورا نامی گاؤں ہے۔ اس گاؤں کے ایک اسکول میں شام کو بالغوں کے لیے اضافی کورسز کرائے جاتے ہیں اور یہ صرف شمسی توانائی کے استعمال کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا ہے۔ بنگلہ دیش میں اس حوالے سے جرمنی کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ جرمنی کے تعاون سے اب تک شمسی توانائی کے تقریباً 1ملین پلانٹس بنگلہ دیش میں نصب کیے جا چکے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ امدادی کارکنوں کے لیے یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
جرمن ترقیاتی امداد کے ادارے سے منسلک توانائی کے شعبے کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ وہاں ہر دن تقریباﹰ ایک تا ڈیڑھ ہزار شمسی پلانٹس فروخت کیے جاتے ہیں۔ جرمن ترقیاتی امداد خاص طور پر چھوٹے سولر انرجی پلانٹس کی حمایت کرتی ہے۔ کم قیمت ہونے کی وجہ سےیہ پلانٹس غریب افراد بھی اپنے گھروں میں استعمال کر سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں ابھی بھی دیہی علاقوں میں رہنے والے 70 فیصد افراد کی بجلی تک رسائی نہیں ہے۔ بنگلہ دیش اپنی ضرورت کے مطابق بجلی پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوا ہے۔ تاہم زلزلے اور سیلاب کے خطرے کے باوجود ڈھاکہ حکومت اب جوہری توانائی کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے۔
کانفرنس میں شریک ڈاکٹر مظہر اسلام نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئےکہا،’’ایک سائنسدان اور محقق کے طور پر میں نے فرانس میں جوہری توانائی کے ایک پروجیکٹ پر کام کیا ہے اور اس لیے مجھے پتہ ہے کہ یہ بہت مشکل ہے۔ مجھے یقین ہے کہ حکومت یہ کام کر پائے گی لیکن اس کے ذریعے بجلی پیدا کرنا، اس کی بحالی اور جوہری فضلے کی سٹوریج، اس سب کی وجہ سے یہ بہت پیچیدہ پروجیکٹ ہے اور میں پُرامید نہیں ہوں۔‘‘
بنگلہ دیش کے وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ جوہری توانائی کےسلسلے میں ڈھاکہ حکومت کی روس کے ساتھ ایک جوہری پاور پلانٹ کے حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے۔ حکومت اس منصوبے سے ایک ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنا چاہتی ہے۔
رپورٹ: راحل بیگ
ادارت : عدنان اسحاق