بنگلہ دیش میں شپ بریکنگ کی صنعت دوبارہ بحال
13 جون 2011گزشتہ برس سات مارچ کو تحفظ ماحولیات کے کارکنوں کی طرف سے عدالت میں ایک اپیل کی گئی تھی، جس میں اسکریپ کے لیے درآمد کیے جانے والے جہازوں کو بنگلہ دیش لانے سے پہلے ان میں موجود ماحول کے لیے خطرناک مواد اور مضر صحت مادوں سے انہیں پاک کرنےکا مطالبہ کیا گیا تھا۔
بنگلہ دیش کی شپ بریکرز ایسوسی ایشن کے صدر حفاظت الرحمٰن کا خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’شکر ہے کہ اس قانونی جنگ کا کوئی نتیجہ نکلا۔ یہ ہماری صنعت کی ایک بہت بڑی جیت ہے۔‘‘عدالتی فیصلے کے مطابق اسکریپ کے لیے دوبارہ بحری جہازوں کی درآمد شروع کی جاسکتی ہے۔ بحری جہاز توڑنے کے جنوب مشرقی اڈے Sitakundu میں پہلے ہی سے 50 جہاز کھڑے ہیں، جنہیں توڑنے کا کام جلد شروع کر دیا جائے گا۔ حفاظت الرحمٰن کے مطابق ان جہازوں کی مالیت 250 ملین ڈالر ہے۔ جبکہ ان سے پانچ لاکھ ٹن لوہے کی پلیٹیں نکالی جائیں گی۔
حفاظت الرحمٰن نے کہا، ’’یہ انڈسٹری مسلسل ترقی کرتی جا رہی ہے۔ رواں برس اتنے بحری جہاز درآمد کیے جائیں گے، جن سے تین ملین ٹن لوہے کی پلیٹیں نکل سکیں۔‘‘
اس طرح سے حاصل ہونے والا اسٹیل بنگہ دیش میں اسٹیل کی کُل ضروریات کا 60 فیصد پورا کرتا ہے۔ حکومت نے اس انڈسٹری سے متعلق نئے قوانین متعارف کروائے ہیں، جن کی بنیاد پر یہ عدالتی فیصلہ ہوا ہے۔ تاہم عدالت کی طرف سے کام کے دوران کارکنوں کی سیفٹی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ جہاز توڑنے والے مزدوروں کو نقصان دہ کیمیائی مادوں مثلاﹰ ایسبسٹاس ،پارہ اور دیگر زہریلے مادوں کے باعث ہلاکت خیز امراض کا شکار ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے۔
یاد رہے کہ 2009ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے، بین الاقوامی تنظیم برائے جہاز رانیIMO کے تحت ہانگ کانگ میں منعقدہ اجلاس میں 66 ممالک نے بین الاقوامی سطح پر بحری جہازوں کو توڑنےکی صنعت کومزید محفوظ بنانے کے لیے ایک معاہد ے پر دستخط کیے تھے۔
اس کا ایک پس منظر یہ بھی ہےکہ تحفظ ماحول اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارےطویل عرصے سے شپ بریکنگ کے روایتی طریقوں کوماحول اور اس صنعت سے منسلک مزدوروں کے لئے ایک بڑا خطرہ قراردیتے آرہے تھے۔
ترقی پزیر ممالک میں جہازوں کوچونکہ ساحلوں کے قریب توڑا جاتا ہے لہٰذا نرم ریت کے باعث وزن اٹھانے والی بھاری مشینوں کا وہاں تک پہنچنا ناممکن ہوتا یے۔ اس لیے یہ کام زیادہ تر ایسے مزدور انجام دیتے ہیں، جن میں بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان حالات میں حادثات کے سبب کارکنوں کی جان جانے یا ان کے معذور ہوجانے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: کشور مصطفیٰ