بنگلہ دیش میں مشتبہ شدت پسندوں کے ہاتھوں پروفیسر کا قتل
23 اپریل 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ڈھاکا میں حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ نامعلوم مسلح افراد نے آج بروز ہفتہ شمالی شہر راج شاہی میں انگریزی زبان کے ایک مقامی یونیورسٹی پروفیسر رضاالکریم صدیق کو خنجروں کے وار کر کے ہلاک کر دیا گیا ہے۔
اٹھاون سالہ صدیق راج شاہی کی پبلک یونیورسٹی سے منسلک تھے۔
پولیس کے مطابق صدیق کو ہفتے کی صبح اس وقت نشانہ بنایا گیا، جب وہ اپنے گھر سے نکل کر بس اسٹاپ کی طرف جا رہے تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور موٹر سائیکل پر سوار تھے، جو اس خونریز کارروائی کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
راج شاہی میٹروپولیٹن پولیس کے سربراہ محمد شمس الدین نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’صدیق کی گردن پر خنجروں سے کم ازکم تین وار کیے گئے اور وہ ستر تا اسی فیصد تک کٹ گئی۔
اس حملے کے طریقہ کار کی ابتدائی تفتیش کے بعد ہمیں شبہ ہے کہ یہ کسی شدت پسند گروہ کی کارروائی ہے۔‘‘
مقامی ڈپٹی کمشنر ناہیدالاسلام کے بقول صدیق رقص سمیت دیگر ثقافتی پروگراموں کے انعقاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے جبکہ انہوں نے باگمارا نامی علاقے میں ایک میوزک اسکول بھی قائم کر رکھا تھا۔
یہ وہی علاقہ ہے، جو کالعدم شدت پسند ’جماعت المجاہدین بنگلہ دیش‘ کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔
ناہیدالاسلام نے بتایا کہ پروفیسر صدیق پر ہونے والا حملہ ویسا ہی تھا، جیسا کہ پہلے شدت پسند گروہ سیکولر بلاگرز اور ناشرین پر کر چکے ہیں۔ اس لیے کافی امکان ہے کہ قتل کی اس نئی واردات میں بھی یہی جنگجو گروہ ملوث ہو سکتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں سن 2013 سے سیکولر بلاگرز اور آن لائن رائٹرز پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان حملوں کا ذمہ دار اس جنوب ایشیائی ملک میں پنپنے والے انتہا پسند جنگجوؤں کو قرار دیا جاتا ہے۔
ابھی رواں ماہ کے آغاز پر ہی ڈھاکا میں رونما ہونے والے ایسے ہی ایک حملے میں ایک اور آزاد خیال بلاگر کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
ڈھاکا حکومت کا کہنا ہے کہ ایسے حملوں میں ’انصار اللہ بنگلہ‘ نامی جنگجو گروہ ملوث ہے۔ گزشتہ برس کے اواخر میں اس گروہ کے آٹھ ممبران کو گرفتار کیا گیا تھا، جو بعدازاں سیکولر بلاگر احمد رجب کے قتل میں ملوث پائے گئے تھے۔ ان ملزمان میں اس گروہ کا بانی بھی شامل تھا۔