بنگلہ دیش میں مظاہرے جاری، دو ہلاک
16 جولائی 2013تازہ صورت حال ملک کے ایک متنازعہ ٹریبونل کی جانب سے جماعت اسلامی کے سابق سربراہ کو 90 برس قید کی سزا سنائے جانے کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ جنگی جرائم کی اس عدالت نے بنگلہ دیش کی بڑی اسلام پسند سیاسی جماعت، جماعتِ اسلامی کے سابق سربراہ غلام اعظم کو سن 1971ء میں جنگ کے دوران انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے پیر 15جولائی کو یہ سزا سنائی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو سزائیں سنائے جانے کا یہ سلسلہ قریب ایک سال سے جاری ہے۔ جس کے ردعمل میں عوامی سطح پر شدید مزاحمت دیکھنے میں آرہی ہے۔ آج منگل کے روز ملک کے جنوب مغربی ضلع ست خیرہ میں جماعت اسلامی کے حامیوں کی ریلی کے دوران مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ اس دوران پولیس کی طرف سے فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم دو افراد ہلاک ہو گئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے مقامی پولیس کے سربراہ تجمل اسلام کے حوالے سے بتایا ہے کہ مظاہرین نے جھڑپوں کے دوران ایک پولیس افسر کو یرغمال بنا لیا، جسے چھڑانے کے لیے پولیس کو فائرنگ کرنا پڑی، جس کی وجہ سے جماعت اسلامی کے دو مظاہرین ہلاک ہو گئے۔
غلام اعظم پانچویں اسلام پسند اور جماعت اسلامی کے چوتھے ایسے رہنما ہیں جنہیں اس ٹریبونل کی جانب سے سزا سنائی گئی ہے۔ غلام اعظم 1971ء میں جماعت اسلامی کے سربراہ تھے۔ ملک کی سیکولر حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے ٹریبونل نے اعظم کو ان کی عمر اور صحت کی وجہ سے رعایت دیتے ہوئے سزائے موت کی بجائے عمر قید کی سزا سنائی۔
اس ٹریبونل کی جانب سے اس سے قبل جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے خلاف سنائے جانے والے فیصلوں نے بھی ملک کو پرتشدد مظاہروں کی آگ میں جھونک دیا تھا۔ وہاں ان مظاہروں میں کم ازکم 150 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے اور ان مظاہروں کو آزادی کے بعد سے ہونے والے سب سے خونریز مظاہرے قرار دیا گیا تھا۔ یہ ہلاکتیں جنوری کے مہینے میں ٹریبونل کی جانب سے پہلا فیصلہ سنائے جانے کے بعد ہوئی تھیں۔ جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ ملک میں قائم متنازعہ ٹریبونل ان کی قیادت سے انتقام لینے اور اسے ختم کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔