بنگلہ دیش میں پر تشدد مظاہرے
8 فروری 2011اپوزیشن کی طرف سے دی گئی ہڑتال کی کال پر ملک بھر میں مظاہرے ہوئے اور عوام کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی۔ اس ہڑتال کے نتیجے میں بنگلہ دیش میں معمول کی زندگی مفلوج ہو کررہ گئی۔
دارالحکومت ڈھاکہ کے شمال مغرب میں واقع راجشاہی نامی علاقےمیں اپوزیشن ’بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی‘ بی این پی کے کارکنوں نے سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا، گاڑیوں کو دانستہ طور پر نقصان پہنچایا اور ہلڑبازی کی۔ جس کے نتیجے میں پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا اور اُن پرلاٹھی چارج کیا۔
راجشاہی کے ڈپٹی کمشنر انوار المرشد خان نے خبررساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’ کم ازکم پندرہ مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے۔‘ حکام نے بتایا ہے کہ بی این پی کے کارکنوں نے ملک کے دیگر شہروں میں بھی پر تشدد مظاہرے کیے۔ بتایا گیا ہے کہ اس دوران درجنوں افراد زخمی ہوئے، جن میں سے کئی پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
ڈھاکہ میں حکام نے بتایا ہے کہ وہاں بھی بی این پی کے کارکنوں نے روز مرہ کی زندگی کو مفلوج کرنے کی کوشش کی اور ایک بس کو آگ لگا دی۔ جس کے نتیجے میں پچیس مسافر وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈھاکہ اور دیگر شہروں میں سکیورٹی فورسز کی ایک بڑی تعداد تعینات کی گئی ہے جبکہ پیر کو ملک بھر میں سکول، دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے۔
بی این پی کی رہنما اور دو مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے والی خالدہ ضیاء نے اس ہڑتال کی کال دی تھی۔ اس ہڑتال کا مقصد نئے ہوائی اڈے کے متنازعہ منصوبے، مہنگائی اور اسٹاک مارکیٹ کی ابتر صورتحال کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔
ڈھاکہ پولیس کے مطابق اس دوران آٹھ بسوں کو نذر آتش کیا گیا جبکہ نجی اور سرکاری املاک کو دانستہ طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ ڈھاکہ کے ڈپٹی کمشنر حبیب الرحمان نے بتایا ہے کہ اس وقت صرف ڈھاکہ میں ساڑھے آٹھ ہزار سکیورٹی عملہ تعینات ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: کشور مصطفےٰ