بنگلہ دیش میں چار ’عسکریت پسند خواتین‘ گرفتار
25 جولائی 2016خبر رساں ادارے روئٹرز نے پچیس جولائی بروز پیر بتایا کہ مقامی کالعدم جنگجو گروہ ’جماعت المجاہدین بنگلہ دیش‘ سے تعلق کے شبے میں چار مشتبہ عسکریت پسند خواتین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سراج گنج ضلع سے حراست میں لی گئی ان خواتین کی عمریں اٹھارہ اور تیس برس کے درمیان بتائی گئی ہیں۔
پولیس نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ یہ خواتین مسلح حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں۔ ضلعی پولیس کے سربراہ سراج الدین نے پیر کے روز میڈیا کو بتایا کہ مخبری پر ایک گھر پر چھاپہ مارا گیا، جہاں سے دستی بم بنانے کا مواد، خام بم اور جہادی لٹریچر بھی برآمد ہوا۔ بتایا گیا ہے کہ ان خواتین نے یہ گھر کرائے پر لے رکھا تھا۔
پولیس کے مطابق ان خواتین سے تفتیش میں اس امکان کو بھی ملحوظ رکھا جائے گا کہ آیا وہ یکم جولائی کو ڈھاکا کے ایک کیفے میں ہوئے حملے کی منصوبہ بندی میں بھی ملوث تھیں۔
غیر ملکیوں میں مقبول اس کیفے میں پانچ حملہ آوروں کی طرف سے کیے گئے حملے کے نتیجے میں بائیس افراد مارے گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر غیر ملکی تھے۔
اس خونریز کارروائی کے بعد بنگلہ دیشی پولیس نے جنگجوؤں کے خلاف اپنا کریک ڈاؤن تیز کر دیا تھا۔ پولیس کے مطابق ’جماعت المجاہدین بنگلہ دیش‘ نے انتہا پسند گروہ داعش کی اطاعت کا اعلان کر رکھا ہے اور یہی گروہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیوں میں ملوث ہے۔
پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے جمعرات کے دن بھی پانچ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا تھا، جن پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ بھی اسی ممنوعہ عسکریت پسند تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں مذہبی، لبرل اور اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف حملوں کی ذمہ داری القاعدہ اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ جیسی دہشت گرد تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں لیکن ڈھاکا حکومت کا کہنا ہے کہ یہ جہادی گروہ بنگلہ دیش میں فعال نہیں ہیں۔