بنگلہ دیش میں کھلے آسمان تلے رفع حاجت پر رفتہ رفتہ پابندی
16 جولائی 2016مگر ایک دہائی میں بہت کچھ تبدیل ہو گیا، راشدہ بیگم کے گاؤں میں بھی اور آس پاس کے دیہات میں بھی۔ باقاعدہ بیت الخلا تعمیر کرنے کی مہم اور عوام میں کھلے آسمان تلے رفع حاجت کے خطرات سے متعلق شعور و آگہی کی ترویج کے ذریعے اس 166 ملین آبادی کے جنوبی ایشیائی ملک میں اب صرف ایک فیصد افراد کھلے آسمان تلے حاجت رفع کرتے ہیں۔ سن 2003ء میں یہ تعداد 42 فیصد تھی۔
دارالحکومت ڈھاکا کے نواح میں واقع بورمی کے علاقے میں راشدہ بیگم نے خبر رساں ادارے ایسوی ایٹڈ پریس سے بات چیت میں کہا، ’’کسی دور میں یہ ہماری عادت تھی کہ رفع حاجت کے لیے کھیتوں یا جنگل کا رخ کیا کرتے تھے۔ اب ہمیں اس میں شرم محسوس ہوتی ہے۔ اب ہمارے بچے بھی کھلے آسمان تلے رفع حاجت نہیں کرتے۔ ہمیں انہیں بتانا تک نہیں پڑتا۔ اب وہ خود ہی بیت الخلا کا استعمال کرتے ہیں۔‘‘
بنگلہ دیش میں لوگوں کو کھلے آسمان تلے رفع حاجت سے روکنے اور بیت الخلا کا استعمال کرنے کے حوالے سے یہ کامیابی اس کے پڑوسی ملک بھارت کے لیے ایک مثالیہ بھی ہے۔ بھارت میں بھی ترقی کے لیے مختلف قومی بجٹ کا قریب 25 فیصد اسی مہم میں خرچ کیا جا رہا ہے، تاہم وہاں اب بھی عوام کی ایک بڑی تعداد کھلے آسمان تلے ہی حاجت رفع کرتی دکھائی دیتی ہے۔
ترقیات کے حوالے سے ایک غیرسرکاری تنظیم براس کے ڈائریکٹر برائے آب اکرم الاسلام کے مطابق، ’’حکومت نے اس سلسلے میں ٹھوس عزم اور عمدہ اقدامات کا مظاہرہ کیا۔ حکومت نے طے کیا کہ اس سلسلے میں فنڈز ان نہایت غریب افراد تک پہنچیں، جن کے پاس بیت الخلا کی سہولت موجود نہیں ہے۔ اس سے عوامی شعبے میں نکاسی آب و فضلہ کے حوالے سے کام کو بڑی تقویت ملی۔‘‘
بنگلہ دیش میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران اس مہم میں حکومتی انجینیئروں نے دیہاتی کونسلز اور خیراتی اداروں کے ساتھ مل کر یہ پیغام عوام کیا کہ بہتر صحت کے لیے بیت الخلا کا استعمال کس قدر ضروری ہے۔ اسلام کے بقول اس شعبے میں کام کرنے والے افراد کی اوسط آمدنی بھی سن 2012 تا 2013 گیارہ سو چون ڈالر تھی، جو گزشتہ مالی سال کے دوران بڑھ کر 1314 ڈالر تک جا پہنچی۔