بوسنیا قتل عام، سرب جنرل کو عمر قید
13 دسمبر 2012دی ہیگ میں عالمی عدالت انصاف کے جج نے آج جمعرات کے روز فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ اور بوسنی سرب فوجی کمانڈر راتکو ملاڈچ کے قریبی ساتھی 64 سالہ سرب جنرل تولیمیر نے سربرینتسا کے 8 ہزار مسلمان مردوں اور لڑکوں کے قتل کی منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مسلمانوں کا یہ قتل عام بوسنیا کی سرب ریاست سے دیگر تمام نسلی گروہوں کا صفایا کرنے کے اس منصوبے کا حصہ تھا، جو قوم پرست سربوں نے تشکیل دیا تھا۔ 1995ء میں ہونے والی اس نسل کشی کو دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں سب سے بڑی بربریت تصور کیا جاتا ہے۔ 1992ء سے 1995ء تک جاری رہنے والی اس جنگ میں 1 لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔
دی ہیگ میں قائم ٹریبونل کے جج کرسٹوف فلگے (Christoph Flugge) نے اپنے فیصلے میں کہا، ’یہ جرائم اپنے پھیلاؤ کے اعتبار سے وسیع، انتہائی شدید اور تباہ کن اثرات کے حامل تھے‘۔ جج نے کہا کہ گواہوں کے مطابق تولیمیر، ملاڈچ کے بہت قریبی ساتھی اور اس کی آنکھیں اور کان تھے۔ ججز کے پینل نے جنرل تولیمیر کو دیگر جرائم کے علاوہ سربرینتسا کے قریب کراویچا نامی گاؤں کے ایک گودام میں 15 سو مسلمان مردوں اور لڑکوں کے قتل کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا، جنہیں مشین گنوں، بندوقوں اور دستی بموں کے ذریعے ہلاک کیا گیا تھا۔ ججز کے پینل نے کہا کہ تولیمیر، ملاڈچ سمیت اعلیٰ فوجی قیادت کے مشترکہ جرائم کے اس گٹھ جوڑ کا حصہ تھے، جن کا مقصد مشرقی بوسنیا سے مسلمانوں کا صفایا کرنا تھا۔
سال 1995ء میں سربرینتسا کی اس خونریزی میں اپنے خاوند اور بیٹے کو کھونے والی صباحتہ فیجچ (Sabaheta Fejzic) نے اس فیصلے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’یہی وہ چیز ہے، جو جولائی 1995ء کے بعد میری روح کے لیےسکون کا باعث ہو سکتی ہے، اگر سزائے موت کا قانون موجود ہوتا تو تولیمیر یقیناً اس کا حقدار تھا لیکن اب اگر نہیں ہے تو تولیمیر کو ساری زندگی جیل میں سڑنا چاہیے‘۔
بوسنیا میں غیرسربوں کی نسل کشی میں اہم کردار ادا کرنے والے سرب جنرل تولیمیر کو جون 2007ء میں بوسنیا اور سربیا کے سرحدی علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اسی طرح سربرینتسا خونریزی اور دیگر جنگی جرائم کے ایک اور اہم کردار 70 سالہ ملاڈچ کو بھی 16 سال بعد گزشتہ برس سربیا سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر بھی ہیگ کی عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
(rh/aa(reuters