1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بوسنیا میں ہم جنس پرستوں کے لیے زندگی بدستور دشوار

عاطف بلوچ، روئٹرز
28 اکتوبر 2016

سلفی مسلمان اور فٹبال کے شائقین کا غل غپاڑہ عموماﹰ ایک ساتھ دکھائی نہیں دیتے، مگر ہم جنس پرستوں کو پیٹنے کے معاملے میں یہ دونوں گروہ مکمل طور پر متحد ہیں۔

https://p.dw.com/p/2Rq44
Moskau - Demonstration für die Rechte von Homosexuellen
تصویر: AP

سن 2008ء میں سرائیوو میں ہم جنس پرستوں اور ٹرانسجینڈر برادری نے چار روزہ ثقافتی فیسٹیول کے انعقاد کا منصوبہ بنایا تھا۔ بوسنیا ہرزیگووینا میں اس طرز کا یہ پہلا میلہ ہوتا، مگر فٹ بال کے درجنوں شیدائیوں اور بہت سے مذہبی شدت پسندوں نے اس فیسٹیول پر حملہ کر دیا۔ یہ افراد ’ہم جنس پرستوں کو قتل کر دو‘ اور ’اللہُ اکبر‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ انہوں نے اس میلے کے شرکاء پر پتھر پھینکے اور لوگوں کو گاڑیوں سے باہر گھسیٹا۔ اس میلے میں شریک متعدد افراد زخمی ہوئے اور بعد میں پولیس نے کل آٹھ افراد کو حراست میں لیا۔

سن 2014ء میں سرائیوو ہی میں ہم جنس پرست فرینڈلی مقام آرٹ کریٹریون سینیما پر بھی 14 نقاب پوش حملہ آور ہوئے اور وہاں انہوں نے دو افراد پر تشدد کیا۔ سرائیوو اوپن سینٹر (SOC) کے نام سے کام کرنے والے ایل جی بی ٹی گروپ کے مطابق پولیس نے ان 14 میں سے صرف ایک شخص سے ’پرتشدد رویے‘ کے الزام کے تحت تفتیش کی۔

مارچ 2016ء میں ایک مرتبہ پھر اسی سینیما پر چار نوجوان حملہ آور ہوئے اور وہاں دو افراد کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے وہاں دھمکی بھی دی کہ پولیس کو مطلع کرنے پر وہ اس سینٹر کو بم سے اڑا دیں گے۔ پولیس نے ان چاروں افراد کو بیانات لے کر چھوڑ دیا۔ پولیس نے اپنی رپورٹ میں حملے کی وجہ ’نامعلوم‘ بتائی۔

معمول کے حملے

ہم جنس پرستوں پر ہونے والے حملے اس دباؤ کو ظاہر کرتے ہیں، جو اس برادری کو بوسنیا ہرزیگووینا میں برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ 21 سالہ صحافی مرزا کا اس حوالے سے کہنا ہے، ’’ہر کسی کو خوف ہوتا ہے کہ اسے نوکری سے نکالا جا سکتا ہے، ہم جنس پرست کو اس حوالے سے اپنا آپ چھپانا پڑتا ہے۔‘‘

Gewalttätige Proteste gegen Treffen von Homosexuellen in Bosnien
بوسنیا میں ہم جنس پرستوں پر حملے معمول بن چکے ہیںتصویر: AP

بوسنیا ہرزیگووینا میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے کارکنان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ ملکی تاریخ اور معاشرتی پیچیدگیوں کی وجہ سے یہ معاشرہ پدرانہ سوچ کا حامل ہے۔ بوسنیا ہرزیگووینا کے دوسرے سب سے بڑے شہر بانیا لُوکا سے تعلق رکھنے والے 17 سالہ طالبان سیرگئی کا کہنا ہے، ’’ہم جنسی پرستی کو مغرب سے درآمد شدہ شے سمجھا جاتا ہے۔‘‘

مرزا کا بھی اس حوالے سے کہنا ہے، ’’لوگ اپنی جنسی رغبت کے حوالے سے کوئی بات عوامی سطح پر نہیں کر سکتے۔ جب آپ گھر سے باہر نکلیں تو آپ کو خود کو تیار کرنا پڑتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ان کے دوست گھر سے باہر ’زیادہ مردانگی‘ کا اظہار کرتے ہیں۔

بوسنیا ہرزیگووینا میں ہم جنس پرستی کے حوالے سے قوانین کم اور مبہم ہیں۔ سن 2003ء میں منظور کیے جانے والے ’جنسی مساوات‘ کے قانون میں ’جنسی رغبت‘ کی تعریف نہیں کی گئی۔ جولائی 2016ء میں پارلیمان نے ’تفریق کی ممانعت‘ کے قانون میں ترمیم کر کے اس میں ’جنسی رغبت کی بنیاد پر تفریق پر بھی پابندی‘ عائد کی، تاہم اس قانون کے باوجود وہاں ہم جنس پرستوں کے خلاف تشدد میں کوئی کمی دیکھی گئی اور نہ ہے ان کے ساتھ عدم مساوات کا رویہ تبدیل ہوا۔