بون میں افغانستان کانفرنس آج ہو رہی ہے
5 دسمبر 2011افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد کی صورتحال پر غور کرنے کے لیے عالمی رہنما آج بون میں ایک روزہ کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں۔ سن 2014ء کے بعد افغانستان کی تعمیر و ترقی کے لیے عالمی برداری کیا حکمت عملی اپنائے گی، یہ فیصلہ آج پیر کو بون میں کیا جائے گا۔
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے مغربی جرمن شہر بون پہنچنے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت پر افسوس ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان ایک اہم فریق ہے۔ تاہم ان کے وفد میں شامل کئی اہم امریکی اہلکاروں نے پاکستان کی طرف سے اس کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے پر کسی خاص تشویش کا اظہار نہیں کیا۔
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’میرے خیال میں اس کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی نہ ہونے سے کچھ فرق تو پڑے گا‘۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان اپنا کردار ضرور ادا کرے گا۔
بون کانفرنس میں 100سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں کے نمائندے شریک ہو رہے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر صالحی بھی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے بون پہنچ چکے ہیں۔
اس بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد سے ایک روز قبل جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے کہا، ’ہم 2014ء کے بعد افغانستان کو ہر گز فرامواش نہیں کریں گے‘۔ اتوار کی شب اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون اور افغان صدرحامد کرزئی کے ساتھ ڈنر کے دوران ویسٹر ویلے نے کرزئی کو یقین دہانی کرائی کہ عالمی برادری طویل المدتی بنیادوں پر افغانستان کے ساتھ تعاون کرے گی۔
جرمن وزیر خارجہ ویسٹر ویلے نے کہا کہ 2014ء میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد عالمی برادری افغان عوام کا ساتھ دینے کے لیے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لائے گی، ’ہمارا ساتھ قائم رہے گا لیکن اس میں تبدیلی آئے گی۔ مستقبل میں ہم زیادہ تر تعمیر نو اور بحالی کے کاموں پر توجہ مرکوز کریں گے‘۔ اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی کابل حکومت کو یقین دلایا کہ جنگ سے تباہ حال افغانستان کی تعمیر نو کے لیے عالمی ادارے کی طرف سے آئندہ بھی مالی مدد فراہم کی جاتی رہے گی۔
ادھر افغانستان میں طالبان باغیوں نے اس کانفرنس سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کانفرنس کے دوران افغانستان میں بیرونی طاقتوں کا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی جائے گی۔ طالبان باغیوں کا مؤقف ہے کہ جب تک غیر ملکی ان کے ملک کو چھوڑ نہیں دیتے، تب تک طالبان نہ تو کابل حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ کریں گے اور نہ ہی اپنی مسلح مزاحمت ترک کریں گے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک