بون میں تیسرا گلوبل میڈیا فورم کامیاب رہا
25 جون 2010اِس بین الاقوامی اجتماع میں دنیا بھر سے آئے ہوئے کوئی ڈیڑھ ہزار مندوبین شریک ہوئے اور یوں بون میں ڈوئچے ویلے کی عمارت کے بالکل ہی قریب واقع ورلڈ کانگریس سینٹر میں گزرے چند روز کے دوران خوب گہما گہمی رہی۔ دُنیا بھر سے اِس میں شریک سینکڑوں مندوبین کی اکثریت اُن صحافیوں پر مشتمل تھی، جو اپنے اپنے ملکوں میں ماحول کو درپیش مسائل پر قلم اٹھاتے ہیں۔
اِس بین الاقوامی اجتماع میں مجموعی طور پر پچاس ورکشاپس اور سیمینارز کا اہتمام کیا گیا، جن میں یہ جانچنے کی کوشش کی گئی کہ لوگوں میں ماحولیاتی مسائل کا شعور اُجاگر کرنے میں صحافی کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق اقوامِ متحدہ کی کونسل کے تاحال سربراہ ایوو ڈے بوئر نے گلوبل میڈیا فورم میں صحافیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:’’مَیں آپ صحافیوں سے کہتا ہوں کہ آپ اپنا وقت اور توانائی وقف کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلیوں کے انسانی اور اقتصادی پہلوؤں کو سمجھیں اور اِن کے بارے میں لکھیں۔ ایسا کرتے ہوئے آپ کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات اور اِن میں چھپے امکانات پر نظر رکھنی چاہئے۔‘‘
گلوبل میڈیا فورم کے مختلف اجتماعات کے شرکاء نے اِس بات پر زور دیا کہ موسمیاتی تبدیلیاں محض کوئی سائنسی یا ماحولیاتی موضوع نہیں بلکہ اِس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ اِس بین الاقوامی اجتماع میں دُنیا بھر سے آئے ہوئے مندوبین کا خیر مقدم کرتے ہوئے وَیرنر ہَوئر نے، جو جرمن وزارتِ خارجہ میں اسٹیٹ سیکریٹری ہیں، کہا کہ عالمگیر موسمیاتی تبدیلیاں خارجہ سیاسی، سلامتی اور دفاعی حوالوں سے بھی ایک اہم موضوع ہیں اور مسئلہ دراصل پوری انسانیت کی بقا کا ہے۔
وَیرنر ہوئر نے کہا:’’موسمیاتی تبدیلیوں کے موضوع میں وہ سب کچھ ہے، جو کسی شہ سُرخی کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ ہر کوئی اِن کے بارے میں سن چکا ہے اور اپنا ایک موقف رکھتا ہے۔ یہ تبدیلیاں ابھی سے بہت سے انسانوں کی زندگیوں کو براہِ راست متاثر کر رہی ہیں اور یہ نہ صرف پہلے سے موجود تنازعات کی شدت میں اضافہ کر سکتی ہیں بلکہ نئے تنازعات کو جنم دے سکتی ہیں۔‘‘
اِس فورم میں شریک سینکڑوں مندوبین میں ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل مرتضےٰ سولنگی اور بوسٹن یونیورسٹی کے پاکستان سے تعلق رکھنے والے پروفیسر عادل نجم بھی شامل تھے۔ پاکستان سے کئی ایف ایم ریڈیو چینلز کے ڈائریکٹرز اور نمائندوں نے بھی اِس فورم میں شرکت کی اور بتایا کہ اُن کے نشریاتی ادارے کس انداز میں ماحولیات کو اپنے پروگراموں کا موضوع بنا رہے ہیں۔
فورم کے میزبان اور ڈوئچے ویلے کے ڈائریکٹر جنرل ایرِک بیٹرمان نے کہا کہ وہ اکثر بیرونی دُنیا کے سفر پر جاتے ہیں اور وہ اُن کوششوں سے خاص طور پر متاثر ہوئے ہیں، جو ایشیائی ممالک میں موسمیاتی تبدیلیلوں کا مقابلہ کرنے اور مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے کی جا رہی ہیں۔
ماحول سے متعلقہ مسائل کے ضمن میں صحافی کیا کردار ادا کر سکتے ہیں، اِس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے بیٹرمان نے کہا:’’صحافیوں کا کام اُس جنگ کی تاریخ رقم کرنا ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف لڑی جا رہی ہے لیکن میرے خیال میں خود صحافیوں کے اپنے ذہنوں میں بھی تبدیلی آنی چاہئے۔ صحافیوں کو صرف رپورٹنگ نہیں کرنی چاہئے بلکہ تحریک دینی چاہئے۔ اُنہیں مسائل کے حل بتانے چاہئیں، امکانات کی نشاندہی کرنی چاہئے اور لوگوں کو حوصلہ دلانا چاہئے۔‘‘
ڈوئچے ویلے کے ڈائریکٹر جنرل کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ صحافی ہی ہیں، جو لوگوں تک یہ پیغام پہنچا سکتے ہیں کہ معاشرے کا ہر فرد انفرادی طور پر بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے میں بہت مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک