بُرکينا فاسو کے صدر مستعفی، فوجی سربراہ نے اقتدار سنبھال لیا
1 نومبر 2014نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹڈ پريس کی دارالحکومت واگاڈوگو سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق کومپاؤرے کے استعفے کے بعد جمعے کو رات گئے تک يہ مکمل طور پر واضح نہيں تھا کہ ملک کی باگ ڈور کس کے ہاتھوں ميں ہے۔ لیکن جوائنٹ چيف آف اسٹاف جنرل ہنورے تراورے نے ٹيلی وژن پر پڑھ کر سنائے جانے والے ايک بيان ميں انتخابات کے انعقاد تک صدارت کے ذمہ داری سنبھالنے کا اعلان کيا۔
بعد ازاں کرنل ياقوبہ ذيدا کے ذرائع سے ملکی ٹيلی وژن پر پڑھ کر سنائے جانے والے ايک اور بيان ميں يہ اعلان کيا گيا کہ تمام سرحديں بند کی جا رہی ہيں اور ايک عبوری کميٹی قائم کر دی گئی ہے۔ قبل ازيں انہوں نے يہ اعلان بھی کيا تھا کہ آئين معطل کيا جا رہا ہے۔ بليس کومپاؤرے کا شمار بر اعظم افريقہ کے طويل مدت تک برسر اقتدار رہنے والے رہنماؤں ميں ہوتا ہے۔
قبل ازيں جمعے ہی کو استعفی ديتے ہوئے بليس کومپاؤرے نے کہا تھا کہ آئندہ نوے ايام ميں اليکشن کرائے جائيں گے۔ تاہم بعد ازاں ياقوبہ ذيدا نے کہا کہ اس بارے ميں فيصلہ بعد ميں کيا جائے گا کہ عبوری حکومت کا ڈھانچہ کيا ہو گا اور وہ کتنی وسيع ہو گی۔ تاحال يہ بھی واضح نہيں ہے کہ اس عبوری حکومت ميں کس کو شامل کيا گيا ہے۔
بليس کومپاؤرے پانچويں مدت صدارت کے خواب کو حقيقی شکل دينے کے ليے پارليمان ميں ايک بل پيش کرنے والے تھے تاہم حالات ايسے پلٹے کہ وہ فوری طور پر مستعفی ہو گئے۔ يہ پيش رفت اس ليے بھی اہم ہے کيونکہ کومپاؤرے پچھلے کچھ سالوں ميں علاقائی سطح پر ايک اہم ثالث کے طور پر ابھرے تھے۔ اس کے علاوہ مغربی افريقہ ميں اسلامی انتہا پسندی کے خلاف کی جانے والی کارروائيوں ميں برکينا فاسو کی حکومت امريکا اور فرانس کی اہم اتحادی رہی ہے۔
اگرچہ بين الاقوامی سطح پر کومپاؤرے کو عزت کا نگاہ سے ديکھا جاتا ہے تاہم ان کے ناقدين کے مطابق ان کے دور اقتدار ميں اٹھارہ ملين آبادی والے ملک برکينا فاسو ميں غربت برپا رہی۔
’انسٹيٹيوٹ آف اسٹريٹيجک اينڈ انٹرنيشنل ريليشنز‘ سے وابستہ افريقی امور کے ماہر فليپے ہُوگون کا کہنا ہے کہ ايک ايسے خطے ميں جہاں متعدد رہنما اپنی مدتوں ميں اضافے کے ليے آئينی تراميم کی کوششيں کرتے آئے ہيں، بليس کومپاؤرے کے اخراج سے کافی اثرات مرتب ہوں گے۔