بچوں سے جنسی زیادتی اسکینڈل، 30 ہزار مشتبہ افراد شامل تفتیش
30 جون 2020جرمن ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے سائبر کرائم یونٹ نے تقریبا تیس ہزار مشتبہ افراد کو تفتیش میں شامل کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انٹرنیٹ پر بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ وزارت انصاف نے پیر کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ایسے مواد کو انٹرنیٹ پر شیئر کرنے کا معاملہ 'انتہائی تشویش ناک‘ ہے۔
جرمنی میں بچوں سے متعلق فحش مواد کے پھيلاؤ ميں اضافہ
ریاستی وزیر انصاف پیٹر بائزن باخ کا کہنا تھا، ''میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انٹرنیٹ پر بچوں کا اس قدر استحصال کیا جا رہا ہے۔‘‘ وزارت انصاف نے کہا ہے کہ تحقیقات سے تقریبا تیس ہزار مشتبہ ملزمان کی شناخت ہو سکتی ہے، ''ہم بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کرنے والوں اور جنسی زیادتی کے حامیوں کو انٹرنیٹ کی گمنامی سے نکالنا اور ان کی شناخت کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
جن مشتبہ افراد کو شامل تفتیش کیا گیا ہے، وہ ایسا مواد یا ویڈیوز شیئر کر رہے تھے، جن میں ممکنہ طور پر کم عمر بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جرمنی میں اس اسکینڈل کا آغاز گزشتہ برس اکتوبر میں ہوا تھا، جب کولون شہر کے مضافاتی علاقے بیرگش گلاڈباخ میں چند مشتبہ ملزمان پکڑے گئے تھے۔ اس کیس میں سب سے پہلی سزا ایک ستائیس سالہ فوجی کو سنائی گئی تھی۔ اسے مئی میں دس سال قید کی سزا سنانے کے ساتھ نفسیاتی علاج کے مرکز میں رکھنے کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔
چائلڈ پورنوگرافی کی روک تھام: ریاست اور سیاستدان ناکام؟
جرمنی میں حالیہ اٹھارہ ماہ کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی کے سنگین نوعیت کے پے در پے کیس سامنے آئے ہیں۔ رواں ماہ کے آغاز میں بھی ایسے گیارہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جو کم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کے ریپ کی ویڈیوز بناتے اور اسے انٹرنیٹ پر شیئر کرتے تھے۔ میونسٹر شہر کے ملزمان کے قبضے سے ملنے والے مواد کے بعد پولیس نے کہا تھا کہ انہوں نے تین متاثرہ بچوں کو شناخت کر لیا ہے جن کی عمریں پانچ، دس اور بارہ برس تھیں۔
اسی طرح میونسٹر سے تقریبا ایک سو پچیس کلومیٹر فاصلے پر واقع لیوگڈے ٹاؤن میں ایک اور سکینڈل منظرعام پر آیا تھا۔ وہاں کیمپنگ سائٹ پر چند افراد گزشتہ کئی برسوں سے سینکڑوں بچوں کا جنسی استحصال کر چکے تھے۔
ا ا / ش ج (اے ایف پی، ڈی پی اے، ای پی ڈی)