بچوں کو ہجرت کے بارے میں سمجھانے کا ایک خوبصورت انداز
20 جولائی 2016عام طور پر نوربری اسکول میں کلاس کے دوران جو کچھ سکھایا یا پڑھایا جاتا ہے یہ کلاس اس سے قدرے مختلف تھی۔ ان بچوں سے کہا گیا کہ آنکھیں بند کر کے تصور کریں کے آپ کا ملک حالت جنگ میں ہے اور آپ سب کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی ہے۔ اس موقع پر ان سب سے خاموش رہنے کے لیے کہا گیا۔ اس کے بعد ان کی استانی ٹیری لو ئیز اوبرائن نے ان بچوں کو بتایا کہ آجکل دنیا میں بے گھر افراد کی تعداد ساٹھ ملین ہے۔
بعد ازاں استانی نے ان بچوں سے کہا ہے کہ اس صورت حال کے بعد ان کے ذہن میں جو کچھ آیا ہے وہ اسے تحریری شکل دیں۔ اس دوران انہوں نے بچوں سے پوچھا کہ اگر آپ کے پاس گھر نہ ہو تو آپ کو کیسا محسوس ہو گا؟ ایک بچے نے لکھا، ’’میرا دل ٹوٹ جائے گا اور میں خود کو اداس محسوس کروں گا‘‘۔ ایک اور بچے نے لکھا، ’’میں اداس ہوں گا اور مجھے ایسا محسوس ہو گا کہ مجھے نظر انداز کیا جا رہا ہے اور میرے پاس سونے کے لیے کوئی گرم جگہ نہیں۔‘‘
اس کے بعد چھ سے گیارہ سال کی درمیانی عمر کے بچوں نے پناہ گزین، مہاجر، بے گھر اور سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے مابین فرق جاننے کے لیے ایک دوسرے سے بات کی۔ اس ساری بات چیت کے بعد او برائن نے کمرے کی لائٹس بند کر دیں اور بچوں کو لبنان اور اردن کے پناہ گزینوں کے مراکز میں رہنے والے شامی مہاجرین پر ایک مختصر سی فلم بھی دکھائی گئی۔ کچھ بچے بہت ہی شکر گزار تھے۔ ایک دس سالہ بچی ناویا نے کہا، ’’پناہ گزینوں کے بارے میں جاننے کے بعد مجھے اپنی کلاس میں شام سے تعلق رکھنے والے مہاجر بچے سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔‘‘ نوربری اسکول میں پچیس بچوں کا تعلق پناہ گزین خاندانوں سے ہے۔ ان میں عراقی، افغانی، اریٹریا اور صومالیہ سے آنے والے مہاجرین کے بچے شامل ہیں۔