بچوں کی کتابوں کا عالمی دن، دَس جرمن شاہکار
بچوں کے لیے کتابیں بے شمار ہیں، ہر عمر کے لیے اور دنیا کے ہر ملک سے آئی ہوئی لیکن ہر ماں باپ اور اپنے بچپن کو یاد کرنے والے ہر شخص کو پتہ ہوتا ہے کہ کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں، جو ہر صورت میں بچوں کے کمرے میں ہونی چاہییں۔
مقبول تصوراتی کردار
جرمن مصنف مشائیل اَینڈے کی شاہکار کتاب ’نہ ختم ہونے والی داستان‘ اب تک کئی ملین کی تعداد میں فروخت ہو چکی ہے اور متعدد انعامات کی حقدار ٹھہری ہے۔ یہ کتاب دنیا کی درجنوں زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے اور شاید ہی کوئی جرمن بچہ ایسا ہو گا، جس کے پاس یہ کتاب نہیں ہو گی۔ یہ کہانی نو عمر لڑکے باستیان کی ہے، جو فینٹیسی لینڈ میں نت نئی مہمات سر کرتا ہے۔
چڑیلیں، ڈاکو اور جادوگر
’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹی سی چڑیل ہوا کرتی تھی‘ اس کہانی میں اچھے اچھے کام کرنے کی خواہاں اس ننھی چڑیل کی عمر 127 سال ہے۔ یہ کردار بچوں کے لیے کتابیں تحریر کرنے والے اور ابھی 2013ء میں انتقال کر جانے والے جرمن مصنف اوٹفریڈ پروئسلر کی شاہکار کتاب ’ڈاکو ہوٹسن پلوٹس‘ کے مرکزی کرداروں میں سے ایک ہے۔ اس میں عجیب و غریب ناموں والے کردار ہیں مثلاً ڈاکو کا نام ہے، ’پٹروسیلیوس سواکل مان‘۔
چلو پانامہ چلیں
ایک ریچھ اور ایک شیر ایک گھر میں ہنسی خوشی رہتے ہیں لیکن پھر ایک دن اُنہیں ایک ڈبہ ملتا ہے، جس پر پانامہ لکھا ہوتا ہے۔ اُس کے اندر سے کیلوں کی خوشبو آ رہی ہوتی ہے اور تب وہ دونوں اپنے خوابوں کی اس سرزمین کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی کہانی ہوئی؟ لیکن غیر منطقی ہونے کے باوجود حال ہی میں اپنی پچاسی ویں سالگرہ منانے والے جرمن مصنف یانوش کے یہ عجیب و غریب کردار بچوں میں بے حد مقبول ہیں۔
دلچسپ و عجیب ’اُرمل‘
بچوں کے جرمن مصنف ماکس کرُوزے کی تحریروں میں تو عجیب و غریب کرداروں کا میلہ سا لگا ہوتا ہے: پروفیسر ہاباکُوک اور اُن کے اردگرد جمع عجیب الخلقت کرداروں کو ایک روز ایک بہت بڑا انڈہ ملتا ہے، جس میں سے نکلنے والے بچے کو وہ ’اُرمل‘ کا نام دیتے ہیں۔ ہر کردار کے بولنے میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہوتی ہے، کوئی تتلاتا ہے تو کسی کی آواز میں لکنت ہوتی ہے اور بچوں کو اُن کی باتیں خوب مزہ دیتی ہیں۔
1933ء: مہاجرین کے مصائب
1923ء میں موجودہ جرمن دارالحکومت برلن میں جنم لینے والی برطانوی مصنفہ جُوڈِتھ کَیر کی کتاب ’جب ہٹلر نے گلابی خرگوش چرا لیا‘ کو 1974ء میں بچوں کی کتابوں کے اعلیٰ ترین جرمن انعام سے نوازا گیا تھا۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کیسے ایک نو سالہ یہودی لڑکی آنا اور اُس کا کنبہ نازی سوشلسٹوں سے بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انسان کے اندر موجود اچھائی
جرمن مصنف ایرِش کیسٹنر کی بچوں کے لیے تحریر کردہ کئی کتابیں مثلاً ’ایمل اور سراغرساں‘ یا پھر ’اُڑتا ہوا کمرہٴ جماعت‘ بچوں میں بے حد مقبول ہیں۔ ان مزاحیہ اور بصیرت افروز کتابوں کے دنیا کی ایک سو سے زائد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں اور کئی ایک پر فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ یہ مشہور جملہ بھی کیسٹنر ہی کا ہے کہ ’اچھائی کا کوئی وجود نہیں ہے، بجز اس کے کہ انسان یہ (اچھائی) کرے‘۔
سات شرارتیں
’ماکس اور مورِٹس‘ دو شریر بچوں کی داستان ہے، جو لازمی طور پر ہر جرمن بچے کے بُک شیلف میں ہوتی ہے۔ پہلی بار یہ شاہکار کتاب 1865ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کردار شاعر اور مصور ولہیلم بُش نے تخلیق کیے تھے، جنہیں آج کل کی مزاحیہ کارٹون کہانیوں کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ اُن کی کتابوں کے کئی جملے آج کل کے جرمنی میں ضرب الامثال کا درجہ رکھتے ہیں۔
جب بچے شرارت سے باز نہ آئیں
جرمن مصنف ہائنرش ہوفمان کی کتاب ’شٹرووَل پیٹر‘ اور بھی پرانی ہے، یہ 1845ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ اُن کی تمام کہانیوں کا لُبّ لُباب یہی ہے کہ جب بچے شرارتوں سے باز نہیں آتے تو اُنہیں اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ اُن کے تخلیق کردہ کئی جملے بھی آج کل جرمن زبان میں محاورے بن چکے ہیں۔
تصور اور حقیقت
جب ہر جانب برطانوی مصنفہ جے کے رالنگ کے کردار ہیری پوٹر کی دھوم تھی، تب جرمن مصنفہ کورنیلیا فُنکے کی تین جِلدوں پر مشتمل داستان ’ٹِنٹن ہَیرتس‘ کی پہلی جلد شائع ہوئی، بہت مقبول ہوئی اور فلمائی بھی گئی۔ یہ ایک بارہ سالہ لڑکی مَیگی کی کہانی ہے، جس کے پاس یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ کہانیوں کی کتابیں پڑھتے ہوئے اُس میں سے تصوراتی کرداروں کو باہر نکال سکتی ہے یا حقیقی کرداروں کو کہانی کے اندر بھیج سکتی ہے۔
چہرے پر خواہشوں کے نشان
جرمن بچوں میں بہت مقبول اس کردار کا نام ہے، ’زَمس‘ اور اسے تخلیق کیا ہے، جرمن ادیب پاؤل مار نے۔ یہ ایک نوعمر کردار ہے، جس کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ لڑکی ہے یا لڑکا۔ ویسے دیکھنے میں وہ لڑکا زیادہ لگتا ہے۔ اُس کے چہرے پر چھوٹے چھوٹے نقطے یا ’خواہشوں کے‘ نشان ہیں۔ کوئی چھوٹی خواہش ہو تو چہرے سے ایک نقطہ غائب ہو جاتا ہے جبکہ بڑی خواہشوں کے لیے دو یا تین نقطے بھی خرچ ہو سکتے ہیں۔