بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کی عالمی مہم
28 اگست 2010جنوبی افریقہ کے دارالحکومت جوہانسبرگ میں بین الاقوامی پیڈی آٹرک ایسوسی ایشن یا ماہرین امراض اطفال کے ایک حالیہ اجلاس میں نمائندوں کو بتایا گیا کہ ترقی پذیر ممالک میں بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کی مہم ایک اہم موڑ پر ہے۔ بچوں کی صحت سے متعلق اس نوعیت کا اجلاس پہلی بار نیم صحرائی افریقہ میں منعقد ہوا جہاں اب تک اس بار کے عالمی فٹ بال کپ کا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ تاریک براعظم افریقہ میں فٹ بال ورلڈ کپ کے کامیاب انعقاد سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ یہاں ہر چیز ممکن ہے۔ اس اجلاس میں یہ ہدف طے کیا گیا کہ 2015 ء تک دنیا بھر میں ہونے والی بچوں کی اموات میں دو تہائی کمی لائی جائے گی۔ یہ اس لئے ممکن ہوگا کہ بچوں کے لئے نئی حفاظتی ادویات مثلاٍ Pneumococcus اور Rotavirus مارکیٹ میں آ چُکی ہیں۔ ان ادویات کے بارے میں بین الاقوامی پیڈی آٹرک ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر Jane Schaller اور کینیڈا کے ماہر امراض اطفال کا کہنا ہے کہ ان سے دست اور نمونیا کی بیماریوں کی وجہ سے اموات میں 40 فیصد کمی ہو سکتی ہے تاہم بیماری کے جنم لینے کے بعد دوا کے ذریعے اس کےعلاج سے زیادہ موثر بروقت حفاظتی اقدام سے بیماری کی روک تھام کرنے کا عمل ہوتا ہے۔ Jane Schaller کے مطابق دنیا کے چند ممالک میں محض 40 فیصد بچوں کو ٹیکے لگائے جاتے ہیں اور یہ طرز عمل کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔
بچوں کو ٹیکے لگانے سے متعلق عالمی ادارہ صحت کے زیر نے 1974 ء میں ایک وسیع پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کا مقصد دنیا کے تمام بچوں کے لئے ایک ایسا ویکسین یا ٹیکہ تیار کرنا تھا جو پانچ بیماریوں کے خلاف انہیں تحفظ فراہم کرے۔ ان میں Tetanus یا تشنج، Diptheria خُناق، Pertussis کالی کھانسی، Hepatitis B یا جگر کی سوزش کا عارضہ اور Haemophilus Influenza وبائی زُکام شامل ہے۔ جوہانسبرگ منعقدہ حالیہ اجلاس میں ادویات سازی کے ایک صنعت کار نے ان پانچوں بیماریوں سے بچاؤ کے لئے ایک ٹیکہ تیار کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ایک غیر منافع بخش ادارے PATH نے یہ ٹیکہ 20 سال قبل تیار کیا تھا۔ اسے Uniject کہتے ہیں، جو ایک چھوٹے سے بلبلے کی شکل کا پلاسٹک ہوتا ہے اور اس کے ساتھ سوئی جُڑی ہوتی ہے۔ اسے یک بار کے استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہے۔ اس ٹیکے کو لگانے کی تربیت محض دو گھنٹوں میں حاصل کی جا سکتی ہے۔ با الفاظ دیگر اس ٹیکے کا استعمال ایسے علاقوں میں بھی با آسانی کیا جا سکتا ہے جہاں تربیت یافتہ طبی عملہ موجود نہیں ہے۔ یہ یقیناً ایک اہم ایجاد ہے۔ اس سے قبل مختلف ادویات کو ملا کر ٹیکہ اُسے جگہ اور اُسے وقت تیار کرنا پڑتا تھا، جہاں بچوں کو یہ ویکسین دینا ہوتی تھی۔ اب اسے سہل بنا دیا گیا ہے اور اس طرح اس میں کسی قسم کے نقص کی گنجائش نہیں پائی جاتی اور اس کے ٹرانسپورٹ کا عمل بھی کہیں زیادہ آسان ہو چکا ہے۔
Uniject سوئی کا استعمال ایشیائی ممالک میں عام ہے، جو Hepatitis B کے ٹیکوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے ادویات کے ضائع ہونے کا امکان بھی نہیں رہتا۔ اس نئی ایجاد کے بارے میں عالمی ادارہ صحت کے پروجیکٹ Optimise سے وابستہ Zipursky Simona کہنا ہے کہ 70 کی دہائی کے وسط میں یہ ٹیکہ تیار کیا گیا تھا ، جس کی بہت سی خوراکیں ایک شیشی میں بند کی جاتی تھیں اور اس شیشی سے کئی بچوں کو دوا دی جا سکتی تھی۔ غیر منافع بخش ادارے PATH کے تعاون سے کام کر نے والے Simona نے بتایا تاہم اس عمل میں دوا ضائع ہوتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ نئی دوا مہنگی ضرور ہے مگر اس میں ضائع ہونے کا کوئی امکان نہیں اس لئے کہ یہ محض ایک خوراک کی پیکنگ ہے۔ Simona نے ایک دلچسپ مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک عام سائز کا فریج پرانی دوا کی روایتی متعدد خوراکوں سے بھری 4000 شیشیوں کے لئے کافی تھا لیکن اسی فریج میں نئی پیکنگ کی محض 600 شیشیاں رکھ سکتا ہے۔ Simona نے کہا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب ہر کلینک کے لئے سات مزید فریج خرید نا ہوں گے تاہم اب پیکنگ اورسرد خانوں کا نظام بہتر بنانا ہوگا تاکہ ہر ملک کی ضرورت پوری کی جا سکے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: عاطف بلوچ