بچہ جمورا اور مڈلائف کرائسز
12 مئی 2021عمر کے درمیانے حصے میں جو اچانک رائیگانی کا احساس ہو جاتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے ساتھ کیا سلوک کیا،کیا کھویا کیا پایا۔ اس کا تعلق ہمارے پچھتاوؤں ،ناآسودہ خواہشات اور ٹوٹے ہوئے خوابوں سے ہوتا ہے۔
یہ تکلیف اور زیادہ بڑھ جاتی ہے، جب ہمیں اپنے اردگرد اپنے ہم عمر یا کم عمر لوگ زندگی میں زیادہ خوش اور مطمئن نظر آتے ہیں اور جلتی پہ تیل چھڑکنے کو سوشل میڈیا پہ دوسروں کے سفرنامے، خوشحال ازدواجی زندگی،کامیابیاں، اچھی اولادیں اور ایسی ہزار ہا چیزیں ہمیں حسد، رشک اور دکھ میں مبتلا کر دیتی ہیں۔
اگر آپ کبھی اس کیفیت سے گزرے ہیں تو یہ مڈلائف کرائسز ہے اور اس کو سمجھنے کے بعد آپ نے دو بنیادی کام کرنے ہیں، پہلا یہ کہ یقین رکھیں کہ سوشل میڈیا کے ببل کے اندر آپ کو جو سب کچھ دکھائی دیتا ہے وہ اکثر سچ نہیں ہوتا۔ اس لیے دوسروں کو دیکھ کر خود پہ رحم کھانا اور ہمت ہارنا چھوڑ دیں کہ اب اس زندگی کا کچھ نہیں ہو سکتا۔
اس کے بعد خود سے ایک سوال کریں کہ کیا آپ نے اپنی زندگی کو آٹو پائلٹ پر رکھا ہوا ہے؟ یا آپ خود اپنی زندگی کے کپتان ہیں۔اس سوال کا مطلب یہ ہے کہ کیا آپ اپنی زندگی کے فیصلے خود لینے کا اختیار رکھتے ہیں اور اس کے بعد اس فیصلے کو نبھانے کی اہلیت آپ کے اندر موجود ہے یا نہیں۔ مڈلائف کرائسز کا شکار عموما وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے فیصلوں کی ڈگڈگی عموما دوسروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ اپنی زندگی کے اہم فیصلوں کے لیے دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں اور سرکس میں موجود بچہ جمورا کی طرح دوسروں کی ڈکٹیشن پر اٹھتے، بیٹھتے اور زندگی گزارتے رہتے ہیں، جیسے کوئی بے منزل کشتی لہروں کے دوش پہ بہتی رہتی ہے۔
ہمارے زندگی کے اہم فیصلوں میں گھر کی تبدیلی، ڈرائیونگ سیکھنا، ریٹائرمنٹ،پراپرٹی میں پارٹنر شپ کا فیصلہ، اپنے شریک حیات کا چناؤ، طلاق، نوکری چھوڑنا،ہجرت، بیرون ملک سفر کرنا، اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا، اپنا کیریئر تبدیل کرنا، تعلیمی ڈگری کا چناؤ، سواری کی خریداری، نوکری میں پروموشن قبول یا رد کرنے کا فیصلہ اور اس طرح کے کئی اہم فیصلے شامل ہیں۔
ہماری فیصلہ سازی کی قوت پر کئی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں، جیسے ہمارا عمومی برتاؤ، چیزوں کو قبول کرنے میں ہمارا وقت لگانا، وسائل کی مناسبت سے ہر چیز کا تجزیہ کرنا، اپنے فیصلوں کے نتائج کو جھیلنے کی ہمت یا دنیا کے سامنے ان کو قبول کرنا، اپنےعلم اور تجربے کی بنیاد پر کوئی قدم اٹھانا یا اپنی اخلاقی اقدار کے تحت فیصلہ سازی کرنا اور جب ہم ان قابلیتوں میں خود کو کسی سے کم سمجھنا شروع کر دیں تو ہم اپنے فیصلوں کے لیے دوسروں کے بھروسے پر رہتے ہیں تاکہ کسی غلطی،کمی یا کوتاہی کی وجہ سے ہمیں ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے۔
ایک سیانے انگریز بابا جی کہہ گئے کہ جب آپ اپنے ذہن کو تخلیق یا سوچ سے خالی چھوڑ دیتے ہیں تو کوئی اور آپکے دماغ کو اپنی مرضی اور مقاصد کے فیصلوں کے لیے استعمال کرتا ہے، پھر مطلوبہ نتائج سے آپ کو فائدہ پہنچے یا نقصان اس سے کسی دوسرے کو کیا سروکار۔ اگر آپ سارا وقت ایک مخصوص طرح سے بیٹھے رہیں، مشقت نہ کریں تو کچھ عرصے بعد آپ کا جسم اسی لائف سٹائل کا عادی ہو جائے گا، جسم کے کچھ مسلز اگر کسرت نہ کریں تو شل ہو جاتے ہیں، چاہے وہ آپ کے لیے کتنا ہی نقصان دہ کیوں نہ ہو۔
بالکل اسی طرح آپ کا دماغ تخلیق، سوچ یا مثبت احساسات سے عاری ہو جائے تو آپ کی زندگی کا توازن بھی بگڑتا ہے اور ترقی جمود میں بدل جاتی ہے۔جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں بالکل اسی طرح ہر فیصلہ ہر انسان کو ایک ہی طرح سے دیرپا خوشی نہیں دیتا۔اس لیے جو لوگ دوسروں کی ڈکٹیشن یا ڈگڈگی پر ناچتے ہیں ان کے پاس تھکاوٹ اور پچھتاوے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔کسی سے مشورہ طلب کرنا اور چیز ہے اور کسی کو اپنی زندگی اور خود سے جڑے لوگوں کے فیصلوں کا مکمل اختیار دینا ایک بالکل الگ اور غلط بات بلکہ ایک قسم کی ذہنی معذوری ہے۔
ہمارا دماغ ایسے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ وہ ہمیں ہر اس چیز یا رسک سے بچاتا ہے جو ہمارے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔آپ کسی میٹنگ میں بیٹھے ہیں اور باس کے کسی سوال پر آپ کے ذہن میں ایک جواب آیا ہے، لیکن آپ محفل میں وہ جواب دینے سے گھبراتے ہیں کہ کہیں آپ کا آئیڈیا آپکو شرمسار نہ کر دے تو یہ جھجھک بھی دماغ کا ایک پروٹیکشن بیرئیر ہے۔ آپ کا سوچا ہوا جواب جب کوئی اور دے اور اس کی تعریف ہو تو آپ کو افسوس ہوتا ہے کہ کاش یہ جواب میں نے دیا ہوتا۔یہ جھجھک شاید اچھی چیز ہو لیکن زندگی کے ہر معاملے کو ہم وقت اور حالات کے دھارے پر نہیں چھوڑ سکتے اور منفی نتائج کی وجہ سے قسمت پر الزام نہیں دھر سکتے۔
ہمارے فیصلے بیجوں جیسے ہوتے ہیں۔ آج آپ جو بوئیں گے اس کا ثمر جلد یا بدیر آپ کے سامنے ہو گا۔آپ آم کے درخت کے خواب دیکھتے ہیں اور پیڑ لگانے کا اختیار کسی اور کو سونپ رہے ہیں تو وقت آنے پر پچھتانا بنتا نہیں، جب آم کی بجائے کیکر کا پودا آپ کا منتظر ہو۔
اس کے علاوہ سستی اور کاہلی کا عنصر بھی ہمارے خوابوں کو حقیقت بننے سے روکتا ہے۔ جب تک ہم اپنے اندر کی عادات تبدیل نہیں کریں گے یہ ممکن ہی نہیں کہ باہر کی دنیا ہمارے لیے آسانیاں یا آسائشیں لے کر آئے۔ یہاں بھی اپنے آرام طلب دماغ کو ٹرک کرنے کا ایک آسان فارمولا یہ ہے کہ جب صبح الارم بجے اور آپ چاہیں کہ چلو پانچ منٹ اور آنکھ بند کرکے لیٹ جاؤں تو فورا پانچ سے صفر تک الٹی گنتی گننا شروع کر دیں۔ اس طرح آپ اپنے دماغ کے اس پروٹیکشن بیرئیر کو توڑ دیتے ہیں، جو آپ کو آرام طلبی پر اکساتا ہے۔
اپنی پروفیشنل لائف، رشتوں اور دیگر ناکامیوں پر ماتم کرنے کی بجائے اپنے اختیار کا استعمال کریں۔ضروری نہیں کہ ہر فیصلہ کامیابی پر ہی ختم ہو۔ لیکن اس طرح وہ ذہنی محتاجی ضرور ختم ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے ہم آسرے ڈھونڈتے ہیں۔ اپنا اختیار استعمال کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید ہے بھی نہیں۔
کے ایف سی فرنچائز کے مالک کرنل سینڈرز نے اپنی ناکام ترین ساٹھ سالہ زندگی کے آخری ایام میں کے ایف سی کی بنیاد ڈالی اور آج دنیا بھر میں ان کے نام کی فرنچائزز ان کی کامیابی کی ضمانت ہیں۔ ہماری ٹی وی کی اداکارہ نے ثمینہ احمد عمر کے کس حصے میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں یا بل گیٹس نے ستائیس سالہ کامیاب ازدواجی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ اس عمر میں کیوں کیا؟ ہم انہی الجھنوں میں سڑتے رہتے ہیں کیونکہ ہم خود اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں۔ مزید برآں کہ یہ مڈلائف کرائسز ایک خود ساختہ کیفیت ہے۔