بگرام کے غیر ملکی قیدیوں کا مستقبل ایک سوالیہ نشان
23 جولائی 2012بگرام میں پچاس سے زائد غیر ملکی قیدی موجود ہیں، جن میں سے نصف سے زائد پاکستانی ہیں۔ پاکستانی حکومت کی دستاویزات کے مطابق بگرام میں تین کم عمر قیدی بھی موجود ہیں۔ دسمبر 2011ء میں لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے کاغذات کے مطابق ان کم عمر قیدیوں میں سے ایک کی عمر 15 اور دو کی عمر 16، 16 برس ہیں۔ امریکی حکام بگرام میں محض دو کم عمر قیدیوں کو موجودگی کی تصدیق کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق امریکی فوج نے افغانستان، عراق اور گوانتا نامو بے میں2001ء کے بعد ڈھائی ہزار سے زائد کم عمر افراد کو قیدی بنایا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان میں سے بیشتر رہائی تو پاچکے ہیں مگر اب اپنی بھکری ہوئی زندگیوں کو سمیٹنے میں خاصی تکلیفیں جھیل رہے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک 24 سالہ پاکستانی شہری جان شیر خان ہیں۔ وہ 16 برس کا تھا جب اسے خودکش بمبار ہونے کے شبے میں گرفتار کرکے بگرام میں قید کر دیا گیا تھا۔
چھ برس بگرام جیل میں گزارنے والے جان شیر کے بقول، ’’ اب بھی کبھی کبھار مجھے لگتا ہے کہ جیسے میں جیل میں ہوں، انہوں نے بغیر کسی ثبوت کے مجھے چھ برس تک جیل میں بند رکھا۔‘‘ اس کے بقول بگرام میں اسے اور کئی دیگر قیدیوں کو مسلسل مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ایک امریکی عدالت میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ بگرام جیل کے اندر دو بالغ قیدی 2002ء کے دوران تشدد کے باعث اپنی جانیں گنواچکے ہیں۔ واشنگٹن میں محکمہء دفاع کے ترجمان لیفٹننٹ کرلن ڈوڈ بریسسیلی کہتے ہیں کہ ماضی میں قانون کی خلاف ورزیوں کے واقعات ہوئے ہیں اور اس کے ذمہ دار امریکی فوجیوں کا احتساب بھی کیا گیا ہے۔ کرلن ڈوڈ بریسیلی کے بقول، ’’ ہمارے دشمن بھی جان بوجھ کر ان واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق چونکہ بگرام جیل کے اندر صحافیوں کو داخلے کی اجازت نہیں اسی لیے جان شیر کی کہانی کے تمام پہلووں کے تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ بگرام کے غیر ملکی قیدیوں کو عدالت میں اپنا موقف بیان کرنے کا موقع حاصل نہیں ہے اور وہ محض امریکی فوجی افسران پر مشتمل ایک بورڈ کے سامنے اپنی مشکلات بیان کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں بگرام جیل کے کچھ قیدیوں کا مقدمہ لڑنے والی تنظیم Justice Project Pakistan سے وابستہ سارہ بلال کے بقول بگرام میں انصاف کے تقاضے بالکل بھی پورے نہیں کیے جارہے۔
جان شیر کے مطابق بگرام جیل میں ان کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا گیا اس کے سبب اب بھی اس کے سر میں درد رہتا ہے اور اس کا مزاج غیر مستحکم رہتا ہے۔ اگرچہ وہ پاکستانی فوج کے ماہر نفسیات سے علاج کروارہا ہے تاہم ملازمت کےحصول اور ایک نئی زندگی کے آغاز میں اسے خاصی مشکلات درپیش ہیں۔ جان شیر کے بقول وہ اپنے فوجی والد کے سخت رویے سے تنگ آکر ملازمت کے حصول کے لیے افغانستان گیا تھا جہاں اسے عسکریت پسندوں کے ساتھ روابط کے شبے پر گرفتار کیا گیا۔ جان شیر خان کو گزشتہ برس رہا کیا گیا اور وہ ریڈ کراس کی مدد سے واپس پاکستان کے شہر پشاور پہنچا ہے۔
(sks/ ai (Reuters