بھارت: آن لائن مفت کنڈوم کی فراہمی کی اسکیم کامیاب
13 نومبر 2017یہ دلچسپ انکشاف ایڈز ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے جاری رپورٹ میں ہوا ہے۔ بھارت میں سیکس پر بات کرنے یا کسی دکان پر جاکر اس حوالے سے مصنوعات خریدنے میں لوگ اب بھی شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور کنڈوم مانگنے سے پہلے اپنے دائیں بائیں نگاہ ضرور ڈال لیتے ہیں کہ کوئی انہیں دیکھ تو نہیں رہا ہے۔ حکومت نے اس رجحان کے مدنظر بڑے شہروں میں سرکاری ٹوائلٹس کے باہر ایسی مشینیں نصب کرائی تھیں جن میں سکہ ڈال کر لوگ اپنی ضرورت کے مطابق کنڈوم حاصل کرسکتے ہیں۔ تاہم حکومت کا یہ منصوبہ مختلف وجوہات کی بناپر کامیاب نہیں ہوسکا۔
ایسے میں جب ایڈز ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن نے آن لائن کنڈوم فراہم کرنے کااعلان کیا تو اس کے حیرا ن کن نتائج سامنے آئے۔ 28 اپریل کو جب یہ منصوبہ لانچ کیا گیا تو اس کے صرف 69 دنوں کے اندر اس ادارہ کو نولاکھ 56 ہزارکنڈوم ڈیلیور کرنے پڑے۔ ان میں سے پانچ لاکھ چودہ ہزار کنڈوم کے لیے کمیونٹیز اور این جی اوز کی طرف سے درخواستیں موصول ہوئیں جب کہ چار لاکھ اکتالیس ہزار کنڈوم انفرادی طورپر منگائے گئے۔ سب سے زیادہ مانگ قومی دارالحکومت دہلی اور جنوبی صوبہ کرناٹک سے آئی۔
اس منصوبہ کے ڈائریکٹر وی سیم پرساد کا کہنا ہے کہ وہ اس پروگرام کو لوگوں کی طرف سے ملنے والے ردعمل سے انتہائی حیرت زدہ ہیں۔ ڈاکٹر سیم پرساد کا کہنا تھا، ’’ان کا خیال تھا کہ دس لاکھ کنڈوم کا اسٹاک دسمبر تک کے لیے کافی ہوگا لیکن ہم جولائی کے پہلے ہفتے میں ہی آؤٹ آف اسٹاک ہوگئے۔ ہم نے مزید بیس لاکھ کنڈوم کا آرڈر دیا ہے جو نومبر کے آخری ہفتے تک مل جائیں گے اور جنوری کے لیے پچاس لاکھ کنڈوم کا آرڈر دیا جاچکا ہے۔‘‘
ماہرین کا خیال ہے کہ آن لائن کنڈوم کو ایسی مقبولیت ملنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ بھارت میں لوگ اب بھی دکانوں سے کنڈوم خریدنے میں شرم محسوس کرتے ہیں اور سیکس سے متعلق کوئی بھی پروڈکٹ تنہائی میں خریدنا پسند کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ آن لائن منگوانے میں پیکٹ ڈلیور کرنے والا شخص یہ نہیں جانتا کہ پیکٹ میں کیا ہے اس لیے کنڈوم کا آرڈر دینے اور اسے وصول کرنے میں شرمندگی حائل نہیں ہوتی ہے۔
مانع حمل پراڈکٹس تیار کرنے والی کمپنیاں بھی اس بات سے متفق ہیں کہ بھارت میں سیکس کے حوالے سے شرمندگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بھارت میں کنڈوم بنانے والی معروف کمپنی ریکٹ بنکیزر کے ترجمان کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’سیکس سے متعلق اشیاء کو مختلف کلچر میں مختلف طرح کے چیلنجوں کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک کا کنڈوم مارکیٹ میں حصہ تیس فیصد ہے جب کہ بھارت کا حصہ داری صرف پانچ فیصد ہے۔ بھارت میں سب سے بڑا چیلنج سیکس کو شجر ممنوعہ سمجھنا ہے، جو سیکس کے حوالے سے لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کی راہ میں بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘
بھارت میں مختلف کمپنیاں کنڈوم کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے نئی نئی اسکیمیں پیش کرتی رہتی ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں بھی کنڈوم کے استعمال کے لیے طرح طرح کی اسکیمیں چلارہی ہیں۔ جس میں اسپتالوں میں کنڈوم کی مفت تقسیم سے لے کر رضاکاروں کے ذریعہ گھر گھر جاکر مفت کنڈوم تقسیم کرنا شامل ہے۔
گو بھارت میں خاندانی منصوبہ بندی کے لیے کنڈوم کے استعمال کو سب سے سہل سمجھا جاتا ہے اور اسے جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں سے بچنے کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے تاہم نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق صرف پانچ اعشاریہ چھ فیصد افراد ہی کنڈوم استعمال کرتے ہیں۔ سروے کے مطابق کرناٹک جیسے ترقی پسند صوبہ میں بھی کنڈوم کا استعمال صرف ایک اعشاریہ سات فیصد ہے۔ سیلی کون ویلی کے نام سے مشہور بنگلور میں یہ شرح صرف تین اعشاریہ چھ فیصد جب کہ کولکتہ میں انیس فیصد اور دہلی میں دس فیصد ہے۔ ایک سروے کے مطابق بھارت میں قومی سطح پر صرف 54 فیصد خواتین اور 77 فیصد مردوں کو کنڈوم کے استعمال کے بارے میں واقفیت ہے۔