بھارت: اسقاط ِ حمل قانون اوراس کے نفاذ میں حائل رکاوٹیں
20 نومبر 2021شلپا(تبدیل شدہ نام) کو ایک دن پتہ چلا کہ وہ حاملہ ہوگئی ہیں۔ 21 سالہ شلپا نے چند ماہ قبل ہی بھارت کی اقتصادی راجدھانی ممبئی میں ایک کالج میں داخلہ لیا تھا۔ ایک بڑے شہر میں تنہا اور پریشان شلپا نے ایک ہسپتال میں ماہرامراض نسواں سے رابطہ کیا اور آٹو رکشہ لے کر وہاں پہنچ گئیں۔ انہیں وہاں سب سے پہلے جس سوال کا سامنا کرنا پڑا، وہ تھا، '' کیا آپ شادی شدہ ہیں؟‘‘
بھارت کے کئی حصوں میں جب کوئی حاملہ خاتون کسی ڈاکٹر کے پاس پہنچتی ہے تو ڈاکٹرسب سے پہلے یہی جاننا چاہتے ہیں کہ کیا وہ سیکس کرتی رہی ہیں کیونکہ ملک میں شادی سے قبل سیکس کو ممنوع سمجھا جاتا ہے۔
شلپا اسقاطِ حمل کے آٹھ ماہ بعد اپنی پہلی ملازمت کے لیے ممبئی سے بنگلور منتقل ہوگئیں۔ لیکن چند ہفتے بعد ہی ان کے فون پر مختلف نمبروں سے کالز آنا شروع ہوگئیں ۔ کوئی مرد دن میں تو کوئی رات میں فون کرتا۔ ان سے طرح طرح کے سوالات کیے جاتے۔ مثلاً '' تم نے اپنے بچے کو کیوں مار ڈالا؟‘‘ ، '' کیا تمہارا کوئی شوہر ہے؟‘‘، '' کیا تم دوسرے مردوں کے ساتھ راتیں گزار رہی ہو؟‘‘
ظاہر ہے شلپا کے فون نمبر اور دیگر تفصیلات کسی نے لیک کردیے تھے۔ ایسا یا تو اس ہسپتال نے کیا تھا جہاں وہ سب سے پہلے گئی تھیں یا پھر اس ماہر امراض ِنسواں نے جس سے انہوں نے علاج کرایا تھا۔ لیکن انہیں جو ذہنی اذیت ہوئی اس کی ذمہ داری کسی نے بھی لینے سے انکار کردیا۔ بالآخر مجبوراً انہیں پہلے نامعلوم افراد کو بلاک کرنا پڑا اور پھر اپنا فون نمبر تبدیل کرنا پڑا۔
جہاں تک خواتین کے تولیدی حقوق کا معاملہ ہے، بھارت میں اس حوالے سے بعض انتہائی ترقی پسند قوانین موجو دہیں۔ تاہم خواتین میں اپنے حقوق کے سلسلے میں عدم شعور اور اسقاطِ حمل سے وابستہ سماجی بدنامی کی وجہ سے شلپا جیسے دردناک واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
کیا تبدیلیاں ہوئی ہیں؟
بھارت سرکار نے تمام ضرورت مند خواتین کو اسقاطِ حمل کی سہولت فراہم کرنے کے لیے حال ہی میں اسقاط ِحمل قانون ' میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگنینسی (ایم ٹی پی)1971 ' میں ترامیم کی ہیں۔ نئے قانون کے تحت کئی زمروں کے لیے اسقاطِ حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت کو 20 ہفتے سے بڑھا کر 24 ہفتے کردیا گیا ہے۔ ان زمروں میں ریپ کا شکار ہونے والی، یا محرمات کے ذریعہ جنسی زیادتی کی متاثرہ اور دیگرکمزور خواتین کو شامل کیا گیا ہے۔ دیگر عام خواتین بھی اس قانون سے فائدہ اٹھاسکتی ہیں الاّکہ کسی اہل ڈاکٹر نے اس کی باضابطہ اجازت دی ہو۔
اسقاطِ حمل کے لیے اس مدت کا اطلاق تاہم جنین میں کسی ہلاکت خیز نقص کی میڈیکل بورڈ کی طرف سے نشاندہی والے کیسز پر نہیں ہوتا۔
مزید برآں 20 سے 24 ہفتے کے درمیان کے حمل کو اسقاط کرانے کے لیے کم از کم دو ڈاکٹروں کی رائے ضروری ہے۔ اس مدت سے قبل اسقاطِ حمل کے لیے صرف ایک ڈاکٹر کی رائے کی ضرورت ہوتی ہے۔
مذکورہ قانون میں رازداری کے حوالے سے بھی ایک شق شامل ہے۔ جس کے تحت خواتین کے نام اور دیگر تفصیلات کو افشا نہیں کیا جاسکتاہے الاّ یہ کہ ایسا کرنا قانوناً ضروری ہوجائے۔
نئے ضابطوں کا مقصد ایسی غیر شادی شدہ خواتین کو بھی طبی طریقے سے اسقاطِ حمل کی سہولت فراہم کرنا ہے جو مانع حمل طریقے کے استعمال کرنے کے باوجود حاملہ ہوگئی ہوں اور اسقاط کرانے کی خواہش مند ہوں۔
بھارت سرکار کے اسقاطِ حمل سے متعلق محکمے میں ایڈیشنل کمشنر ڈاکٹر سومیتا گھوش کہتی ہیں،'' یہ بھارت میں خواتین کی اجتماعی خواہش کی جیت ہے۔اسقاطِ حمل قانون میں ترامیم نے خواتین کے لیے محفوظ اور قانونی اسقاط ِحمل خدمات تک رسائی میں اضافہ کیا ہے۔‘‘
تاہم خواتین کو بچے پیدا کرنے کے حق کے حوالے سے سرگرم تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ قانون درست سمت میں محض پہلا قدم ہے۔
قانونی جواز بمقابلہ حقیقی صورت حال
گوکہ بھارت کے اسقاطِ حمل قوانین حقوق پر مبنی نہیں تھے لیکن 1971 ء میں جب ایم ٹی پی قانون منظور کیا گیا اس وقت یہ دنیا میں تولیدی حقوق کے حوالے سے انتہائی ترقی پسند قوانین میں سے ایک تھا۔ پچاس برس بعد بھی قانون کا مقصد وہی ہے۔ یعنی اسقاط کرانے والوں کو سہولت فراہم کرنا کیونکہ بھارت میں قصداً اسقاطِ حمل تعزیرات ہند کے تحت جرم سمجھا جاتاہے۔
خواتین کے حقوق اور بھارت میں محفوظ اسقاط ِحمل کی علمبردار تنظیم 'پرتیگیا کمپین' کے مطابق '' ترامیم تو منظور کرلی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ اب بھی ایسا قانون نہیں ہے جو خواتین کے حقوق میں پیش قدمی کرتا ہو یا ان کے وقار اور انصاف کو یقینی بناتا ہو۔ بھارت میں محفوظ اسقاطِ حمل تک رسائی کے لیے خواتین اور لڑکیوں کوبہت ساری رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
سب سے بڑی رکاوٹ '' مانع حمل طریقہ کار کے استعمال کے ناکام ہوجانے '' والی شق ہے‘‘۔ حالانکہ ڈاکٹر بالعموم اعتماد کی بنیاد پر اسقاط کے لیے اپنی منظوری آسانی سے دے دیتے ہیں لیکن یہ بہر حال پوری طرح ڈاکٹر کے رویے پر منحصر ہوتا ہے۔ بعض معاملات میں ڈاکٹر اجازت نامے پر دستخط کرنے سے قبل حاملہ خواتین سے ان کے شناختی کارڈ یا میرج سرٹیفیکیٹ دکھانے کے لیے کہتے ہیں۔ ایسے میں خواتین کے استحصال کا خدشہ برقرار رہتا ہے۔
پرتیگیا کمپین' کا کہنا ہے،'' بھارت نے ایک حقیقی ترقی پسند، حقوق پر مبنی اسقاطِ حمل قانون بنانے کا اہم موقع گنوادیا۔‘‘
بدنما داغ کا احساس
بھارت جیسے ملک میں، جو کہ ترقی پسند اسقاطِ حمل قوانین کا دعوٰی کرتا ہے، غیر محفوظ اسقاطِ حمل زچگی کے دوران ہونے والی اموات کی تیسری سب سے بڑی وجہ ہے۔ تقریباً80 فیصد خواتین اس بات سے ناواقف ہیں کہ 20 ہفتے کے اندر اسقاطِ حمل قانونی ہے۔
بھارت کے سماجی پس منظر میں بچے کی پیدائش میں خواتین کی اپنی رضامندی اب بھی غیریقینی صورت حال کا شکار ہے۔'ایشیا سیف ابارشن پارٹنرشپ‘ کی شریک بانی اور ماہر امراض نسواں ڈاکٹر سچترا دلوی نے ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا،'' 1.36 ارب کی آبادی والے ملک میں ماہرین امراض نسواں اور گائنا کولوجسٹوں کی تعداد محض پچاس ہزار سے ستر ہزار کے درمیان ہے۔ ان میں سے بیشتر بڑے شہروں یا قصبوں میں ہیں اور ان میں سے ہر ڈاکٹر اسقاطِ حمل کرانے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔‘‘
ڈاکٹر سچترا دلوی بھی ایم ٹی پی قانون میں ترمیم کے دوران اسقاطِ حمل کے حوالے سے مواقع گنوادینے کی بات تسلیم کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ سب سے بڑی چوک یہ ہوئی کہ ہم نے حمل کو برقرار نہ رکھنے کی خواہش والی خواتین کے اسقاطِ حمل کا اختیار فرد کو دینے کیبجائے ڈاکٹروں کو منتقل کردیا۔
ڈاکٹردلوی مزید کہتی ہیں کہ قانون میں ترامیم سے حاملہ خاتون کی خودمختاری میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے یا یہ اسقاطِ حمل کو غیر مجرمانہ قرار دینے کی سمت میں کوئی قدم نہیں ہے۔ یہ ترامیم اس امر کو بھی یقینی نہیں بناتے کہ کسی کو اسقاط ِحمل سے انکار نہیں کیا جائے گا یا اسے غیر محفوظ اسقاط کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا یا اسے اسقاط کے لیے بہتر ادویات تک رسائی فراہم کی جائے گی۔
شلپا ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہتی ہیں،'' میری خوش قسمتی تھی کہ میں ایک مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتی ہوں لیکن اس کے باوجود خود کو ہراساں کیے جانے سے لوگوں کو روک نہیں سکی۔ میں ان لاکھوں خواتین کے بارے میں سوچتی ہوں جن کے پاس کوئی قانونی سہارا نہیں ہوتا، ان کے لیے اپنی پسند سے اسقاطِ حمل کرانا تو واقعتاً محض ایک خواب ہے۔‘‘
(سیرت چھابا)/ ج ا/ ک م