بھارت: ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ پر کورس شروع کرنے کی سخت مخالفت
23 مئی 2018جے این یو انتظامیہ کے اس فیصلے کی دانشوروں، سیاسی جماعتوں اور مسلم تنظیموں نے سخت مذمت کی ہے اور اس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اعلان کیا ہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی(جے این یو) بھارتی وزارت تعلیم کی رینکنگ کے لحاظ سے ملک کی دوسری سب سے بہترین یونیورسٹی ہے۔ وہاں بھارت کے علاوہ دنیا بھر کے تقریباً آٹھ ہزار طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس نے ملک کو متعدد اہم رہنما اور بیوروکریٹ دیے ہیں۔
موجودہ وزیر دفاع نرملا سیتارمن بھی اسی یونیورسٹی کی طالبہ رہی ہیں۔ جے این یو اپنے کھلے ماحول، اظہار خیال کی آزادی اور سیکولر و ترقی پسندانہ مزاج کے لیے مشہور ہے۔ گوکہ شدت پسند ہندو قوم پرست طاقتیں اس پر قدغن لگانے کی مختلف طریقوں سے ہمیشہ کوشش کرتی رہی ہیں تاہم مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اس میں کافی شدت آگئی ہے۔
اس کے لئے کئی طرح کے حربے اپنائے گئے۔ جن میں کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ و طالبات کو ہراساں کرنا، وظائف کی تعداد میں تخفیف کرنا، داخلے کے ضابطے تبدیل کرنا اور نشستوں میں کمی کرنا شامل ہیں۔
مسئلہ کیا ہے؟
یہ تنازعہ اس وقت پیدا ہوا، جب جے این یو کی اکیڈمک کونسل کی 18مئی کو ہونے والی میٹنگ میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر ایم جگدیش کمار نے سینٹر فار نیشنل سکیورٹی اسٹڈیز کے قیام کی تجویز رکھی، جس میں ’اسلامی دہشت گردی‘ کا کورس بھی پڑھایا جائے گا۔ کونسل کے متعدد اراکین نے اس پر اعتراض کیا لیکن وائس چانسلر نے ان کے اعتراضات کو نظر اندازکرتے ہوئے تجویز منظور کرالی اور کہا کہ ان اعتراضات پر بعد میں غور کیا جائے گا۔
تجویز کی رو سے پہلے پانچ سال میں صرف تحقیق پر توجہ دی جائے گی۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طالب علموں کا داخلہ لیا جائے گا جس کے لئے دو پروفیسر، دو ایسوسی ایٹ پروفیسر اور چار اسسٹنٹ پروفیسر بحال کئے جائیں گے۔
جے این یو انتظامیہ پر ہندو قوم پرستی کا الزام
جے این یو کی موجودہ انتظامیہ اور مرکزی حکومت پر طلبہ اور اساتذہ کی جانب سے پہلے ہی یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اس معروف یونیورسٹی کو آر ایس ایس کی’شاکھا‘ یا یونٹ بنا دینے کے در پے ہے اور اسی غرض سے آر ایس ایس کے ایک کارکن کو وائس چانسلر بنایا گیا اور چونکہ وہ طلبہ اور اساتذہ کی مخالفت کے سبب یونیورسٹی میں آر ایس ایس کی شاکھا کھولنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو سینٹر فار نیشنل سکیورٹی اسٹڈیز کی شکل میں شاکھا کھول رہے ہیں۔
جے این یو اسٹوڈنٹس یونین (جے این یو ایس یو) کی صدر گیتا کماری کا الزام ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ شدت پسند قوم پرست ہندووں کی جماعت اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) کے اشارے پر کام کر رہی ہے۔ انتظامیہ اس طرح کے اقدام سے طلبہ کو کیمپس کے اندر تقسیم کرنے اور اس تعلیمی ادارے کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حالانکہ ہر ایک کو یہ معلوم ہے کہ دہشت گردی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دوسری طرف بی جے پی کی اسٹوڈنٹس ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے یونیورسٹی انتظامیہ کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے اسے’’ قابل فخر لمحہ قرار دیا کیوں کہ یہ اس طرح کا کورس شروع کرنے والی پہلی یونیورسٹی ہے۔‘‘
اقلیتی کمیشن کا نوٹس
دہلی اقلیتی کمیشن نے جے این یو کے اس فیصلے کے خلاف رجسٹرارکو قانونی نوٹس جار ی کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ آخر کس بنیاد پر یونیورسٹی میں ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کا کورس شروع کیا جارہا ہے۔کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے یونیورسٹی انتظامیہ سے پوچھا ہے کہ جب جے این یو کی اکیڈمک کونسل کے بہت سے ممبران اس کورس کو شرو ع کرنے کے خلاف ہیں تو پھر کس بنیاد پر اس کورس کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور کیا ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کے بارے میں کورس شروع کرنے سے پہلے کوئی کانسیپٹ پیپر تیار کیا گیا ہے، اگر تیار کیا گیا ہے تو اس کی کاپی مہیا کرائی جائے۔‘‘
ڈاکٹر خان نے مزید کہا ’’ہم نے انتظامیہ سے یہ بھی پوچھا ہے کہ کیا کورس شروع کرنے سے پہلے کیمپس میں، طلبہ پر اور باہر کی سوسائٹی پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں بھی غور کیا گیا ہے۔‘‘
سیاسی جماعتیں بھی فیصلے کے خلاف
متعدد سیاسی جماعتوں نے بھی یونیورسٹی کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ بائیں بازو کی جماعت مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری نے ڈی ڈبلیوسے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی کے اعلی ترین فیصلہ ساز ادارہ پولٹ بیورو نے جے این یو میں ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کا نصاب شروع کرنے کی تجویز کی سخت مخالفت کی ہے۔ یچوری کا کہنا تھا، ’’بی جے پی حکومت اعلی تعلیم کو مسلسل فرقہ وارانہ رنگ دینے کے ساتھ ہی اعلی تعلیمی اور تحقیقی اداروں پر حملے کر رہی ہے۔ بھارت کی تاریخ کو ہندو مذہبی کتابوں کے طور پر پڑھانے کے ساتھ ساتھ اب وہ مرکزی یونیورسٹیوں کے نصاب کو بھی فرقہ ورانہ رنگ دینے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے اور اسی لئے اس نے ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کا کورس شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے ملک کے اتحاد اور سالمیت کو نقصان ہوگا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’اگر دہشت گردی کا مطالعہ کرنے کے بارے میں کوئی نصاب شروع کرنا ہی تھا تو مذہبی انتہاپسندی سے متعلق کورس شروع کیا جانا چاہیے تھا نہ کہ کسی ایک مذہب کو نشانہ بنایا جانا چاہئے۔‘‘خیال رہے کہ سیتارام یچوری زمانہ طالب علمی میں جے این یو ایس یو کے صدر رہ چکے ہیں۔
کانگریس کے رکن پارلیمان مولانا اسرارالحق قاسمی کا اس حوالے سے کہنا تھاکہ اگر جے این یو میں واقعی ایسا کور س شروع ہونے جا رہا ہے تو یہ پورے ملک کے لئے نہایت ’بدقسمتی اور شرمندگی‘ کی بات ہے اور ا س سے ملک کے جمہوری ڈھانچے کو سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ مولانا قاسمی کا کہنا تھا کہ جے این یو بھارت ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں معیاری تعلیم اور ریسرچ اور اپنی مخصوص سیکولر شناخت کے لئے جانی جاتی ہے، جہاں دنیا بھر کے مختلف مذاہب کے ماننے والے طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد تعلیم حاصل کرتی ہے، ’’ا یسے میں اگر وہاں اسلامی دہشت گردی کے نام سے کوئی نصاب پڑھایا جاتا ہے تو اس سے مسلم طلبہ و طالبات کو نفسیاتی طور شدید چوٹ پہنچے گی۔‘‘ انہوں نے انسانی وسائل کے فروغ کی وزارت سے مطالبہ کیا کہ اگر واقعی ایساکوئی نصاب تیار کیا جارہا ہے تو اس پر نظر ثانی کی جائے۔
سابق ممبر پارلیمنٹ اور جمعیت علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے ا س سلسلے میں وزارت تعلیم، یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور چانسلر کو خط لکھ کر کہا ہے کہ دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنا ایک گھناونی سازش اور مذہب اسلام کی توہین ہے، جسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔
مولانا مدنی نے اسے اسلاموفوبیا کا پروپیگنڈا بتاتے ہوئے کہا کہ اگر جے این یو انتظامیہ نے اپنا فیصلہ واپس نہیں لیا تو ان کی جماعت عدالتی چار ہ جوئی کا راستہ اختیار کرے گی۔ سماج وادی پارٹی کے رہنما آصف صدیقی نے جے این یوکے نصاب میں ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کے نام سے مضمون شامل کرنے کو آر ایس ایس کا منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ناقابل برداشت ہے۔
جے این یو انتظامیہ کا یو ٹرن
دریں اثنا مختلف حلقوں کی جانب سے سخت اعتراض اور نکتہ چینی کے بعد جے این یو انتظامیہ نے آج تئیس مئی کو ایک مختصر بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے، ’’ایسا کورس شروع کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔‘‘