بھارت اور اسرائیل کے تعلقات نئی بلندیوں کی جانب
15 جنوری 2018بھارت اور اسرائیل کے وزرائے اعظموں کی موجودگی میں دونوں ملکوں کے مابین وفود کی سطح پر بات چیت کے بعد باہمی تعاون کے نو معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ان میں دفاع، سائبرسیکورٹی ،خلائی ٹیکنالوجی، فضائی خدمات، فلم سازی، زراعت ،ہومیوپیتھک علاج اور قابل تجدید توانائی نیز ثقافتی تعلقات اور سیاحت کو فروغ دینے جیسے معاہدے شامل ہیں۔
ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نیرندر مودی نے عبرانی زبان میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا استقبال کرتے ہوئے کہا، ’’میرے عزیزدوست ، آپ کابھارت میں خیر مقدم ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں نے اپنے رشتوں میں پیش رفت کا جائزہ لیا ہے اورانہیں آگے بڑھانے کا عزم کیا ہے۔
نیتین یاہو بھارت میں، تعاون بڑھانا دورے کا مقصد
نیتن یاہو کا اہم دورہء بھارت، بڑا تجارتی وفد ہم راہ
’نریندر مودی فلسطین کا دورہ کریں گے‘
’’ہم نے اپنے پرانے فیصلوں پر عمل درآمد کے حوالے سے بھی بات کی۔ اس کے نتائج زمین پر نظر آنے لگے ہیں اورآج کی بات چیت میں رشتوں کو مضبوط کرنے اور شراکت داری میں وسعت پیداکرنے پر اتفاق ہوا ہے۔‘‘
پریس کانفرنس کے دوران دونوں رہنماوں کے درمیان کافی گرم جوشی دیکھنے کو ملی۔ دونوں نے ایک دوسرے کی خوب تعریف کی۔ مودی نے نتین یاہو کو ان کی عرفیت ’بی بی‘ کہہ کر مخاطب کیا، جس کا نتین یاہو نے ’نریندر‘ کہہ کر جواب دیا۔
نیتن یاہو نے وزیر اعظم مودی کو ’انقلابی رہنما‘ بتاتے ہوئے کہا، ’’وہ ہندوستان میں انقلاب لے آئے ہیں اور مستقبل کا خاکہ بھی تیار کر رہے ہیں۔ اسرائیل کاآپ کا دورہ واقعی انقلابی تھا کیونکہ کسی بھارتی رہنما نے پہلی مرتبہ اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔‘‘
بھارت اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی تعریف کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے کہا، ’’بھارت میں گزشتہ تین ہزار برسوں میں یہودیوں نے کبھی امتیازی سلوک محسوس نہیں کیا، جیسا کے بعض دیگر ملکوں میں ان کے ساتھ ہوا۔ یہ بھار ت کی عظیم تہذیب، رواداری اور جمہوریت کا مظہر ہے۔‘‘
دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جنگ جاری رکھنے کا عہد دہرایا۔
مودی نے دفاع سمیت مختلف شعبوں میں اسرائیلی کمپنیوں کو بھارت میں سرمایہ کاری کی پالیسی سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دی اور کہا کہ جن شعبوں میں صد فیصد راست غیرملکی سرمایہ کاری(ایف ڈی آئی) کی گنجائش ہے، ان سے اسرائیل کو کافی فائدہ ہوگا۔ تاہم یہاں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کو اس وقت ایف ڈی آئی کی سخت ضرورت ہے اوراگر اسرائیل اس میں دلچسپی لیتا ہے تو اس سے نہ صرف دنیا میں ایک مثبت پیغام جائے گا بلکہ بھارت کو عالمی سرمایہ کاروں کے لیے ایک پسندیدہ ملک بنانے کی مودی کی کوششوں کو بھی تقویت ملے گی۔
نیتن یاہو کایہ دورہ دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات قائم ہونے کے پچیس سال بعدکسی اسرائیلی وزیراعظم کا بھارت کا دوسرا دورہ ہے۔ اس سے قبل 2003میں ایریل شیرون بھارت کے دورے پر آئے تھے۔ اس وقت بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت تھی جب کہ نریندر مودی نے چھ ماہ قبل ا سرائیل کا دورہ کیا تھا۔
پچھلے پچیس برسوں کے دوران دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں حالانکہ غیر معمولی پیش رفت ہوئی ہے تاہم دو حالیہ اہم واقعات نے باہمی تعلقات پر سوالات بھی کھڑے کئے ہیں۔ بھارت نے اسرائیل کے ساتھ ٹینک شکن گائیڈیڈ میزائلوں کی خریداری کا پانچ سو ملین ڈالر کا سودہ منسوخ کر دیا تھا۔ دوسری طرف اقوام متحدہ میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی اعلان کےخلاف پیش کردہ قرارداد میں بھی بھارت نے اس امریکی اقدام کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ نیتن یاہو نے یہاں اس ملال کا اظہار یوں کیا، ’’اقوام متحدہ میں بھارت کی جانب سے اسرائیل کے خلاف ووٹ دینے سے ان کے ملک کو مایوسی تو ہوئی ہے لیکن اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘‘
سابق سفارت کار تلمیذ احمد کا کہنا ہے کہ اس وقت جو عالمی حالات ہیں ان کے مدنظر، ’’اسرائیل اور بھارت کے درمیان تعلقات ایک حد تک ہی آگے جاسکتے ہیں اور تمام تر بیان بازی کے باوجود وہ کبھی بھی اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کی سطح تک نہیں پہنچ سکتے۔‘‘
دریں اثنا نتین یاہو کے دورہء بھارت کے خلاف ملک کے کئی حصوں میں مظاہرے بھی ہوئے۔ مختلف شہروں میں مسلم تنظیموں نے احتجاج کیا اور نتین یاہو کے پتلے جلائے۔ دوسری طرف بائیں باز و کی جماعتوں نے انڈیا گیٹ کے نزدیک مظاہرہ کیا۔ قبل ازیں آج پیر کی صبح نتین یاہو کاراشٹرپتی بھون (صدارتی محل) میں روایتی خیر مقدم کیا گیا۔ وہ راج گھاٹ بھی گئے اور وہاں مہاتما گاندھی کی سمادھی پر گلہائے عقیدت پیش کیے۔