بھارت اور امریکا کے درمیان سویلین جوہری معاہدے پر پیش رفت
25 جنوری 2015اس بارے میں مودی کا کہنا تھا کہ انہیں خوشی ہے کہ چھ برس قبل طے کیے جانے والے معاہدے پر معاملات آگے بڑھے ہیں۔ سن دو ہزار آٹھ میں اس معاہدے پر دستخط تو کر دیے گئے تھے تاہم بعض معاملات طے نہ ہونے کی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔
امریکی صدر باراک اوباما پاکستان کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسری مرتبہ ایشیا کی تیسری بڑی معیشت بھارت پہنچے ہیں۔ امریکی صدر باراک اوباما جب بھارت کے سرکاری دورے پر نئی دہلی پہنچے تو پروٹوکول کی پروا نہ کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم اور ہندو قوم پرست رہنما نریندر مودی نے صدر اوباما کا ہوائی اڈے پر استقبال کیا اور ان کو گلے سے لگا لیا۔ صدر اوباما کو صدارتی محل پر اکیس توپوں کی روایتی سلامی بھی دی گئی۔ اوباما نے بھارت پہنچنے کے فوراً بعد ہی مہاتما گاندھی کی قبر پر پھول چڑھائے۔
اس تین روزہ دورے میں اوباما بھارتی رہنماؤں سے دہشت گردی اور تجارت سمیت مندرجہ ذیل امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔
اسٹریٹجک اہمیت
بھارت کے حجم، محل وقوع، تیزی سے ترقی کرتی معیشت اور علاقائی سطح پر چین کا مقابلہ کرنے کی ممکنہ صلاحیت وہ عناصر ہیں جو اس جنوبی ایشائی ملک کو امریکا کی تجارتی اور فوجی حکمت عملی کے لیے اہم بناتے ہیں۔ خطے میں وزیر اعظم نریندر مودی کا جارحانہ پن بھارت کو پہلے سے بھی زیادہ واشنگٹن کے قریب لے آیا ہے لیکن امریکا اور بھارت پاکستان کو ایک ہی نظر سے نہیں دیکھتے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بارے میں فکرمند ہے۔ بھارت دہشت گردی کے خلاف مزید تعاون کے ساتھ ساتھ سویلین اور فوجی استعمال کے لیے ایڈوانس ٹیکنالوجی کی اشیاء تک رسائی چاہتا ہے۔
بھارت کے ساتھ دفاعی تعاون
امریکا روس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے جب کہ بھارت اس وقت دنیا میں ہتھیار خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ امریکی حکام نے یقین ظاہر کیا ہے کہ اس دورے میں امریکی صدر بھارت کے ساتھ متعدد دفاعی معاہدے کریں گے جن میں ریوین ڈرونز اور سی ون تھرٹی ٹرانسپورٹ طیاروں کی مشترکہ پیداوار کے معاہدے بھی شامل ہیں۔
سول جوہری تعاون
امریکی اور بھارتی اہل کار جوہری توانائی میں اربوں ڈالر کی ممکنہ تجارت کے راستے کھولنے کی کوششوں میں ہیں لیکن یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ صدر اوباما کے دورے میں دونوں ملک ایسی کسی حتمی معاہدے پر دستخط بھی کریں گے یا نہیں۔ دونوں ملکوں نے 2008ء میں ایک تاریخی سول جوہری معاہدے پر دستخط کئے تھے تاہم بعض معاملات طے نہ ہونے کی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔ آج ون آن ون ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے پیش رفت کا اعلان کیا ہے۔
تحفظ ماحولیات
توقع کی جا رہی ہے کہ امریکا اور بھارت عالمی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے کی کششوں کا اعلان کریں گے۔ چین اور امریکا کے بعد بھارت کاربن ڈائی آکسائید کے اخراج کا سبب بننے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت قابل تجدید توانائی کے حصول کے لیے اس شعبے میں امریکا سے جدید ٹیکنالوجی کا مطالبہ کرے گا۔ بھارت اس شعبے میں امریکی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کا خواہش مند ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ امریکی کمپنیاں اس شعبے میں ایک سو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کریں۔ واشنگٹں کے اپنے دورے میں نریندر مودی نے امریکی سرمایہ کاروں کو ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کی پیش کش کی تھی۔
اقتصادی روابط
گزشتہ برس مودی اور اوباما نے سالانہ دو طرفہ تجارت میں پانچ گنا اضافہ کرتے ہوئے تجارتی حجم پانچ سو بلین ڈالر تک لے جانے کا ہدف رکھا تھا۔ لیکن امریکی سرمایہ کار بھارتی مارکیٹ میں مکمل رسائی اور اپنی سرمایہ کاری کے قانونی تحفظ کے حوالے سے مایوس ہوئے ہیں۔ مقامی اسٹیل، پولٹری اور شمسی صنعتوں کے حوالے سے بھارت اور امریکا نے ایک دوسرے کے خلاف عالمی تجارتی تنظیم میں کئی مقدمات دائر کر رکھے ہیں۔