بھارت اور پاکستان میں بات کیوں نہیں بن پا رہی؟
31 مئی 2021پاکستانی وزير اعظم عمران خان نے 30 مئی اتوار کے روز ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کی بحالی تک بھارت کے ساتھ تجارتی روابط اور تعلقات کی بحالی ممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال میں بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کشمیریوں کے ساتھ بڑی غداری ہو گی۔
عمران خان نے ٹیلی فون پر پاکستانی شہریوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ چین بھی بہت بڑی منڈی ہے، جس سے پاکستان کے اچھے روابط ہیں،''بلا شبہ بھارت کے ساتھ بہتر رشتے، ہمارے لیے تجارتی طور پر بہت مفید ثابت ہوں گے تاہم بھارت جب تک کشمیر سے متعلق اپنا فیصلہ واپس نہیں لیتا اس وقت تک یہ ممکن نہیں ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا، ''اقتدار میں آنے کے بعد پہلے ہی دن سے میں نے کوشش شروع کی کہ ہم بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں اور مسئلہ کشمیر بات چیت کے ذریعے حل ہو جائے۔ تاہم موجودہ صورت حال میں اگر ہم اس وقت بھارت کے ساتھ تعلقات معمول کے مطابق کرتے ہیں تو یہ کشمیری عوام کے ساتھ بہت بڑی غداری ہو گی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس موقع پر تعلقات بحال کرنا،’’ایک لاکھ سے زیادہ کشمیریوں کی شہادتوں اور ان کی تمام تر جدوجہد کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہو گا۔"
حالیہ مہینوں میں میڈیا میں یہ بات کافی سرخیوں میں رہی ہے کہ دونوں ممالک تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں دونوں حریف ممالک کے مابین خفیہ بات چیت جاری ہے۔ تاہم عمران خان کے اس بیان نے ایک بار پھر سے ان قیاس آرائیوں کی نفی کی ہے۔
آخر بات کیوں نہیں بن پائی؟
اس ماہ کے وسط میں بھی انہوں نے اسی طرح کا ایک بیان دیا تھا جس پر بھارت نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا تھا اور اس بار بھی اب تک کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم ان کی ان باتوں سے لگتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان رشتے بحال ہونے میں اب بھی کافی طویل سفر طے کرنا ہے۔
سینیئر بھارتی صحافی اور تجزیہ کار سنجے کپور کہتے ہیں کہ اس بارے میں پہلے جو اطلاعات آئی تھیں ان سے کافی توقعات وابستہ ہو گئی تھیں لیکن اب لگتا ہے کہ دونوں ملکوں میں سرد مہری اور جمود طاری ہے۔ ان کے مطابق،’’اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بھارت نے پاکستانی پہل کا خاطر خواہ جواب نہیں دیا اس لیے اس جانب کافی مایوسی ہے۔‘‘
ان کے مطابق،’’بھارت نہیں چاہتا تھا کہ سرحد پر چین کے ساتھ کشیدگی ہو اور اسی سے بچنے کے لیے اس نے پہلے بڑی گرم جوشی دکھائی تھی۔ یہی اس کا مقصد بھی تھا۔ لیکن اس نے جب دیکھا کہ حالات اب بہتر ہیں تو اس نے اس حوالے پاکستانی توقعات اور مطالبات کو نظر انداز کر دیا۔"
سنجے کپور کے مطابق ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بھارت میں کووڈ کی وجہ سے گزشتہ تقریباً تین ماہ سے حالات بہت خراب ہیں اور اس دوران بھارت کی پوری کوشش اس بات پر رہی ہے کہ خوراک کا انتظام کہاں سے ہو، آکسیجن کس سے حاصل کی جائے، تو محکمہ خارجہ تو آفات سے نمٹنے میں ہی لگا رہا اور کسی دوسری چیز پر توجہ ہی نہیں دے پایا،’’اب پاکستان کا موقف یہ ہے کہ اگر آگے کچھ بھی بات چیت یا پیش رفت ہونی ہے تو یہ تبھی ممکن ہے جب بھارت کوئی اہم قدم اٹھائے۔‘‘
تعلقات کی بحالی کے لیے کوششیں
گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کے ایک سفیر نے پہلی بار باضابطہ طور پر اس بات کی تصدیق کی تھی کہ وہ ان کا ملک پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کی ٹیبل تک لانے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ سفارت کار کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان صحت مند اور فعال رشتے استوار کرنا ہے۔
یہ بھی اطلاعات تھیں کہ دونوں ملکوں کی حکومتوں نے گزشتہ کئی ماہ کے دوران بیک چینل ڈپلومیسی بھی شروع کی تھی جس کا مقصد تعلقات کو معمول پر لانا تھا۔ خبریں تھیں کہ اس کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان خفیہ ملاقاتیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ ان کوششوں کے کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکے۔
کشیدہ تعلقات
جوہری طاقتوں بھارت اور پاکستان کے درمیان سن 2019 سے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں، جب کشمیر میں بھارتی فوجی قافلے پر ہونے والے حملے میں چالیس بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔ بھارت نے ان حملوں کے لیے پاکستان سے سرگرم دہشت گردوں کو مورد الزام ٹھہرایا تھا اور جوابی کارروائی کرتے ہوئے اپنے جنگی طیاروں کے ذریعہ پاکستانی علاقوں کو نشانہ بنایا تھا۔ پاکستان نے بھی بھارت پر فضائی حملوں سے اس کا جواب دیا تھا۔
سن 2019 میں ہی پانچ اگست کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی، جس کا مقصد بھارت کے زیر انتظام کشمیر پر گرفت کو مضبوط کرنا ہے۔ اس اقدام کے جواب میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح گھٹاتے ہوئے تجارتی تعلقات معطل کر دیے تھے۔