بھارت اور چین کے درمیان بڑے فوجی ٹکراو کا خدشہ
26 مئی 2020بھارت کے اعلی فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت نے پیونگ یانگ اور گولوان وادی میں اپنی فوجی قوت میں اضافہ کردیا ہے۔
دفاعی تجزیہ نگار سابق کرنل اجے شکلا کا کہنا ہے کہ جس طرح جون 2017 میں بھارتی جوانوں نے چینی سرحدی محافظوں کو حیرت زدہ کردیا تھا تقریباً یہی صورت حال اس مرتبہ بھارتی فوج کے ساتھ پیش آئی ہے۔ بھارتی فوج اس وقت حیرت زدہ رہ گئی جب پانچ مئی کو تقریباً پانچ ہزار چینی فوجی گالوان وادی میں داخل ہوگئے۔ 12 مئی کو اسی طرح کے ایک دیگر واقعے میں بھی تقریباً اتنی ہی تعداد میں چین فوجی پیونگ یانگ جھیل سیکٹر میں بھی پہنچ گئے۔ جنوبی لداخ کے ڈیم چوک اور شمالی سکم کے ناکو لا میں بھی چینی فوج داخل ہوگئی۔ اجے شکلا کہتے ہیں ”دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان بات چیت نہیں ہورہی ہے اور مسئلے کا حل نکالنے کے لیے فلیگ میٹنگوں کی بھارت کی اپیل پر چین توجہ نہیں دے رہا ہے۔“
2014میں چومار علاقے میں چین اور بھارت کے درمیان فوجی تعطل کے دوران شمالی کمان کی باگ ڈور سنبھالنے والے سابق آرمی کمانڈر لفٹننٹ جنرل ڈ ی ایس ہوڈا کہتے ہیں ”یہ بہت سنگین بات ہے۔ یہ کوئی معمول کی دراندازی نہیں ہے۔“ ان کے خیال میں چینی دراندازی اس لیے غیر معمولی ہے کیوں کہ گالوان جیسے علاقے میں دونوں ملکوں کے درمیان کسی طرح کا کوئی تنازعہ نہیں ہے۔
چین میں بھارت کے سابق سفیر اور اسٹریٹیجک امور کے ماہر اشوک کے کانتھا بھی لفٹننٹ جنرل ہوڈا کی رائے سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا تھا”چینی فوج نے کئی مقامات پر دراندازی کی ہے۔ یہ بات انتہائی تشویش کا موجب ہے۔ یہ معمول کا تعطل نہیں ہے۔ یہ پریشان کن صورت حال ہے۔“
خیال رہے کہ اس سے قبل مشرقی لداخ میں صورت حال اس وقت تشویش ناک ہوگئی تھی جب پانچ مئی کو پینگ یانگ جھیل علاقے میں بھارت اورچین کے تقریباً ڈھائی سو فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوگئی تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف لوہے کی سلاخوں اور ڈنڈوں کا استعمال کیا اور پتھراو بھی ہوا۔ اس میں بھارت کے چار اور چین کے سات فوجی زخمی ہوگئے تھے۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ نو مئی کو سکم کے ناکولا درہ علاقے میں پیش آیا تھا جب بھارت اورچین کے ڈیڑھ سو فوجی آمنے سامنے آگئے تھے اور اس جھڑپ میں دس فوجی زخمی ہوگئے تھے۔ حالانکہ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق ان جھڑپوں میں دونوں ملکوں کے تقریباً 100 فوجی زخمی ہوئے۔
خبروں کے مطابق گزشتہ ہفتے کے اوائل میں بھارتی آرمی اور نیم فوجی دستے انڈو۔تبتن بارڈر پولیس کی ایک گشتی پارٹی کوچینی فوج نے پکڑ لیا تھا لیکن انہیں بعد میں رہا کردیا۔ بھارتی آرمی نے تاہم ان خبروں کی تردید کی تھی۔
اس تشویش ناک صورت حال کے مدنظر بھارت کے آرمی چیف جنرل ایم ایم نروانے نے 22 مئی کو لیہ میں 14ویں کور کے ہیڈکوارٹر کا خاموشی سے دورہ کیا اور چوٹی کے کمانڈروں کے ساتھ میٹنگ کی جس میں بھارت اور چین کے درمیان حقیقی کنٹرول لائن کے اطراف کے علاقو ں کی سکیورٹی کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔
چین نے انڈین آرمی پر اس کے علاقوں میں غیر قانونی طورپر دراندازی کا الزام لگاتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ یہ سکم اور لداخ میں حقیقی کنٹرول لائن کی ’حیثیت کو یک طرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوشش‘ ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انو راگ سریواستو نے تاہم اس الزام کی تردید کی ہے کہ بھارتی افواج کے چینی علاقوں میں غیر قانونی طور پرد اخل ہونے کی وجہ سے یہ کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔
لیکن چین آخراس طرح کا رویہ کیوں اختیار کررہا ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے ان اقدامات کا تجزیہ کرنا مشکل ہے خاص طورپر ایسی صورت میں جب بیجنگ کی طرف سے کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا ہو۔ بھارت میں یہ امید کی جارہی تھی کہ گزشتہ اتوار کو چینی وزیر خارجہ اپنی سالانہ پریس کانفرنس میں اس حوالے سے ضرور اظہار خیال کریں گے لیکن اپنی 100منٹ کی پریس کانفرنس میں انہوں نے بھارت کا نام ایک بار بھی نہیں لیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے رویے کی سب سے آسان وضاحت یہ ہوسکتی ہے کہ وہ لداخ میں سرحدی انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کی بھارت کے اقدامات کا جواب دے رہا ہے۔ 2017 کے ڈوکلام واقعے کے بعد وہ سرحدی علاقے میں بھارت کی کسی بھی سرگرمی کے تئیں کافی حساس ہوگیا ہے۔
خیال رہے کہ2017 میں ڈوکلام میں بھارت اور چین کے درمیان 73 دنوں تک فوجی تعطل قائم رہا تھا۔ دونوں ملکوں کی افواج ایک دوسرے کے سامنے آگئی تھیں۔
دفاعی امور کے ماہر سابق لفٹننٹ جنرل ہوڈا کا خیال ہے کہ چینی فوج حقیقی کنٹرول لائن پر جوکچھ کررہی ہے اس میں یقینی طورپر دھمکی کا عنصر بھی شامل ہے۔ ”متعدد مقامات پر دراندازی کا مقصد بھارت پر دباو ڈالنا ہوسکتا ہے۔ مجھے پوری طرح اندازہ نہیں کہ چینی فوج کا اصل مقصد کیا ہے لیکن ان کے رویے نے ایک بڑا خطرہ پیدا کردیا ہے۔“
دفاعی تجزیہ نگار اور سابق سفیر کانتھا کہتے ہیں کہ چینی فوج کے رویے میں جارحیت دیکھنے کو مل رہی ہے اور بھارت او رچین کے درمیان حقیقی کنٹرول لائن پر جو حالات ہیں انہیں بھارت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔