بھارت: اُڑی حملے کے بعد کسی بڑی جوابی کارروائی کا امکان کم
21 ستمبر 2016دو روز قبل اُڑی کے بھارتی فوجی کیمپ پر حملے میں اٹھارہ فوجیوں کی ہلاکت ہمالیہ کے متنازعہ خطّے میں تعینات بھارتی فوج کے لیے گزشتہ چَودہ برسوں کا سب سے بڑا دھچکا تھی۔ اس کے باوجود روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق چند ایک بھارتی حکام نے ایک نپا تُلا رد عمل ظاہر کرنے اور پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے سفارتی نوعیت کی منظم اور مربوط کوششیں عمل میں لانے پر زور دیا ہے۔
ابھی تک فوجی رد عمل محدود نوعیت ہی کا ہے۔ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں میں بھارتی دستوں نے آٹھ افراد کو ہلاک کر دیا، جو اُن کے بقول سرحد پار کر کے بھارتی زیر انتظام کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
بھارتی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کہا کہ اُڑی پر حملے کے بعد بھارت میں گہرا غم و غصہ پایا جاتا ہے اور پاکستان کے حوالے سے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے:’’لیکن اس معاملے میں حکومت جو بھی فیصلے کرے گی، وہ پوری سفارتی اور اسٹریٹیجک بلوغت کے ساتھ کیے جائیں گے۔‘‘ پرساد نے سرحد پار حملے کرنے جیسے لغو بیانات دینے سے بھی خبردار کیا۔
پاکستان نے اس حملے میں ملوث ہونے کے بھارتی الزامات کو یہ کہہ کر رَد کر دیا ہے کہ کسی بھی قسم کی تحقیقات سے پہلے ہی بھارت نے یہ الزامات عائد کر دیے تھے۔ اتوار کو حملے کے فوراً بعد ہی بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ایک ٹویٹ کیا تھا کہ ’پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے‘۔
اگرچہ وزیر اعظم نریندر مودی پر اپنے ہندو قوم پرست حامیوں کی جانب سے پاکستان کو سخت جواب دینے کے لیے بہت زیادہ دباؤ ہے تاہم مودی حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی طرح وہی محتاط رد عمل ظاہر کر رہی ہے، جو مثلاً 2008ء میں ممبئی حملوں جیسے بڑے سانحے کے بعد بھی اختیار کیا گیا تھا۔
منگل کو بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے نے اُڑی کے کیمپ میں خون کے نمونے اور ڈی این اے جیسے مزید شواہد جمع کیے۔ چاروں حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اُن کے قبضے سے برآمد ہونے والے جی پی ایس آلات کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ وہ کس راستے سے آئے۔
ان بھارتی دعووں کے درست ثابت ہونے پر کہ یہ حملہ آور درحقیقت پاکستان سے لائن آف کنٹرول کو عبور کرتے ہوئے آئے تھے، پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کو پناہ دینے کے الزامات قوی تر ہو جائیں گے اور اُس پر سفارتی دباؤ بڑھ جائے گا۔