بھارت، ایک اور لڑکی کے ریپ کے بعد اسے آگ لگا دی
7 مئی 2018خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ریاست جھاڑکھنڈ کے طبی حکام کے حوالے سے پیر کے دن بتایا ہے کہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے والی سترہ سالہ لڑکی کی حالت تشویشناک ہے۔ اسے جمعے کے دن ریپ کیا گیا تھا اور بعد ازاں ملزمان نے اس پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی تھی۔
بھارت: ریپ کی شکایت، سولہ سالہ لڑکی کو زندہ جلا دیا
نابالغ لڑکی کا ریپ: معروف بھارتی گرو کو تا دم مرگ سزا
بھارت: بچوں کو ریپ کرنے والے مجرمان کے لیے سزائے موت کا آرڈینینس
جمعے کے دن ہی جھاڑکھنڈ میں ایک سولہ سالہ لڑکی کو بھی اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد اسے زندہ ہی جلا کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ جنسی زیادتی کے ان تازہ واقعات پر حکومتی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔
پاکور ضلع کے پولیس سربراہ شیلندر بارن وال نے پیر کے دن صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ سترہ سالہ لڑکی کا جسم بری طرح جھلس گیا ہے تاہم اس کے زندہ بچ جانے کا امکان موجود ہے۔
طبی ذرائع کے مطابق اس لڑکی کے جسم کا 70 فیصد حصہ بری طرح جل چکا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ متاثرہ لڑکی کو ایک نجی ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا ہے تاکہ اس کا زیادہ بہتر علاج کیا جا سکے۔
شیلندر نے بتایا ہے کہ ایک انیس سالہ مشتبہ لڑکے کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ممکنہ طور پر اسی لڑکے نے سترہ سالہ لڑکی پر تیل پھینک کر اسے آگ لگائی تھی۔‘‘ اس پولیس اہلکار کے مطابق اس کیس کی چھان بین کا عمل جاری ہے اور جلد ہی حقائق عام کر دیے جائیں گے۔
دوسری طرف ریاست جھاڑ کھنڈ کے ضلع چترا میں سولہ سالہ لڑکی کے ریپ اور قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں پندرہ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
بھارت میں جنسی زیادتی اور اقدام قتل کے اس طرح کے واقعات کی وجہ سے عوام میں غم وغصہ پایا جا رہا ہے۔ اگرچہ حکومت نے اس طرح کے جرائم کے سدباب کے لیے قوانین سخت بنائے ہیں تاہم پھر بھی اس کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ حکومت کو مقامی سطح پر خواتین کے خلاف تشدد کی سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف سزائے موت یا کڑی سزائیں ہی اس مسئلے کا حل نہیں ہیں۔
سن دو ہزار سولہ میں بھارت بھر میں جنسی زیادتی کے تقریبا چالیس ہزار کیس رپورٹ ہوئے تھے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی درست تعداد کہیں زیادہ ہے کیونکہ بہت سے لوگ معاشرتی دباؤ کی وجہ سے ریپ کے کیس رپورٹ ہی نہیں کرتے۔
ع ب / ع ت / خبر رساں ادارے