بھارت : بابری مسجد تنازعے کی حتمی سماعت ملتوی
5 دسمبر 2017یہ مقدمہ بھارتی عدلیہ کی تاریخ میں پیچیدہ ترین مقدمات میں سے ایک ہے۔ بابری مسجدکے انہدام کے کل چھ دسمبرکو پچیس برس پورے ہونے پر سب کی نگاہیں عدالت عظمی پر لگی تھیں، جہاں بابری مسجد کے حق ملکیت کے معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر چار دیوانی مقدمات میں مجموعی طور پر تیرہ اپیلوں پر چیف جسٹس دیپک مشرا ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس عبدالنظیر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
اس مقدمے میں بابری مسجد کے فریق سنی وقف بورڈ نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے تمام دستاویزات پیش نہیں کی گئیں۔
دوسری طرف فریق مخالف نے اس دعوے کو غلط بتایا اور کہا کہ تمام متعلقہ دستاویزات کی ترجمہ شدہ کاپیاں جمع کرائی جا چکی ہیں۔ عدالت نے اس پر دائر اپیلوں کے ایڈوکیٹس آن ریکارڈ کو حکم دیا کہ وہ ایک ساتھ بیٹھ کر یہ یقینی بنائیں کہ تمام دستاویزات عدالت میں داخل ہوں اور ان پر نمبر شمار بھی درج کیے جائیں۔
بابری مسجد کیس، سرکردہ ہندو لیڈروں کے خلاف مقدمہ چلے گا
خیال رہے صوبہ اترپردیش کے ایودھیا میں مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے سپہ سالار میر باقی کے ذریعے 1528ء میں تعمیر کردہ بابری مسجد کی متنازعہ 2.77 ایکڑ زمین کی ملکیت کے حوالے سے الہ آباد ہائی کورٹ نے 30 ستمبر 2010ء کوایک عجیب و غریب فیصلہ سناتے ہوئے اس زمین کو دونوں فریقین میں تقسیم کرنے کے بجائے تین برابر حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ایک حصہ رام للا کو بھی دے دیا، جہاں فی الحال ان کی مورتی رکھی ہوئی ہے۔
اس فیصلے کے خلاف مسلمانوں اور ہندووں کی مختلف تنظیموں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ حتمی سماعت سے قبل سپریم کورٹ نے اس مقدمے سے متعلق تمام دستاویزات کا انگلش میں ترجمہ کرانے کا حکم دیا۔ یہ دستاویزات فارسی، سنسکرت اور پالی سمیت آٹھ زبانوں میں نو ہزار صفحات پر مشتمل ہیں۔ جب کہ نوے ہزار مزید صفحات پر گواہوں کے بیانات درج ہیں اور ان سب کا ترجمہ انگلش میں کرانا ہے۔
بابری مسجد کا انہدام: ایڈوانی اور ساتھیوں پر سازش کا الزام
اس مقدمے کی پیچیدگی اور ممکنہ فیصلے کے مضمرات کے مدنظر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جے ایس کیہر نے گزشتہ مارچ میں فریقین کو عدالت سے باہر باہمی مصالحت سے اس تنازعے کا حل نکالنے کامشورہ دیتے ہوئے اس معاملے میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیش کش کی تھی۔ تاہم فریقین نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔
مصالحت کی ایک اور کوشش آرٹ آف لیونگ کے سربراہ سری سری روی شنکر نے گزشتہ ماہ کی۔ پچھلے دنوں انسانی حقوق کے ایک گروپ نے بھی سپریم کورٹ میں عرضی دائر کر کے کہا کہ یہ صرف حق ملکیت کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کے دیگر پہلو بھی ہیں اور اس فیصلے کے ملک کے سیکولر تاثر پر اثرات مرتب ہوں گے۔
مسلمانوں کی ایک بڑی تنظیم جماعت اسلامی ہند کے صدر (امیر) مولانا جلال الدین عمری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’مسلمان عدالت کا فیصلہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں اور اس تنازعے کا عدالت سے باہر کوئی فیصلہ ممکن نہیں، ماضی میں اس طرح کی دس کوششیں ہو چکی ہیں لیکن وہ سب کی سب ناکام ہو گئیں اور کچھ لوگ بلا وجہ خود ساختہ ثالث بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’جو ثبوت پیش کیے ہیں اس کی بنیاد پر یہ فیصلہ مسلمانوں ہی کے حق میں آنے کی امید ہے۔‘‘
خیال رہے کہ اس تنازعے کا آغاز 1853ء میں اس وقت ہوا، جب بابری مسجد کے معاملے پر ہندووں اور مسلمانوں میں جھڑپ ہوئی تھی۔ لیکن مسجد میں نماز ہوتی رہی حتی کہ 23 دسمبر 1949ء کی رات چند ہندووں نے مسجد میں داخل ہوکر اس کے منبر پر رام جی کی مورتیاں رکھ دیں اور صبح سویرے اعلان کردیا کہ مندر میں بھگوان رام پر کٹ(نمودار) ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد مقامی انتظامیہ نے وہاں مسلمانوں کے نماز ادا کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
ہندو رام مندر کی تعمیر کی مسلسل کوششیں کرتے رہے حتی کہ چھ دسمبر 1992ء کو مسجد منہدم کر کے وہاں عارضی رام مندر تعمیر کر دیا گیا۔ جہاں آج تک باضابطہ پوجا ہو رہی ہے۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی، اس کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور اس کی سرپرستی میں کام کرنے والی دیگر تنظیمیں وہاں ایک عظیم الشان رام مندر بنانا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کے مذہبی عقیدے کا معاملہ ہے اور اس میں کسی طرح کی مصالحت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔