بھارت: بی جے پی کے اکلوتے مسلم اُمیدوار کون ہیں؟
26 اپریل 2024ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس سال عام انتخابات میں پروفیسر عبدالسلام کو کیرالا کے مسلم اکثریتی ضلعے ملاّپورم سے اپنا اُمیدوار بنایا ہے۔ پروفیسر عبدالسلام ماہر تعلیم ہیں اور کیرالا یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہ چکے ہیں۔
پروفیسر عبدالسلام نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس بات کا پورا اندازہ ہے کہ ملاپورم میں مقابلہ کتنا سخت ہے۔ انہوں نے کہا،''ہر شخص کو معلوم ہے کہ ملاپورم، حکمراں این ڈی اے اتحاد اور بی جے پی کے لیے سب سے مشکل ترین حلقہ ہے۔ پچھلے یعنی 2019 ء کے عام انتخابات میں ہمیں تمام ووٹوں کا صرف 4.9 فیصد ہی مل سکا تھا۔‘‘
’یہ الیکشن سے زیادہ مودی پر ریفرنڈم ہے‘
بھارت کے قومی انتخابات میں پہلے مرحلے کی پولنگ جاری
ملاپورم مسلم اکثریتی حلقہ ہے، یہاں مسلمانوں کی آبادی 70 فیصد ہے۔ یہ حلقہ انڈین یونین مسلم لیگ کا گڑھ رہا ہے۔ سن 1952کے بعد سے صرف ایک مرتبہ کے علاوہ بقیہ تمام انتخابات میں یہاں سے مسلم لیگ کا اُمیدوار ہی کامیاب ہوا ہے۔
بی جے پی کے امیدوار پروفیسر عبدالسلام کا کہنا ہے کہ دراصل مسلم لیگ نے یہاں کے لوگوں کو بی جے پی کے سلسلے میں گمراہ کررکھا ہے۔ ''ایل ڈی ایف اور یو ڈی ایف (ریاست کے حکمراں اتحاد) دونوں ہی بی جے پی کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مودی جی مسلمان مخالف ہیں اور تمام مسلمانوں کو ملک بدر کردیں گے۔ اس لیے بی جے پی مخالف جذبات یہاں عام طورپر دیکھنے کو ملتے ہیں۔‘‘
مودی ایک چائے فروش سے مقبول رہنما کیسے بنے؟
بھارتی انتخابات: نوجوان کیا سوچ رہے ہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پارٹیاں بابری مسجد، گیان واپی مسجد، سی اے اے یا این آر سی جیسے دیگر موضوعات کو مسلمانوں کو بی جے پی سے دور رکھنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
'مودی جی کا فلسفہ'
پروفیسر عبدالسلام کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تو کافی مشکلات اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن حالات اب بہتر ہورہے ہیں۔
انہوں نے بی جے پی کی تعریف کرتے ہوئے کہا، ''بی جے پی صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ سماج کے تمام طبقات کے لیے بہترین سیاسی جماعت ہے، جو سب کو اس طرح ایک ساتھ لے کر چلتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''پارٹی میں سب کے لیے جگہ ہے، اس کا فلسفہ ہے کہ جولوگ بھی اس سرزمین پر پیدا ہوئے ہیں وہ بھارت کے شہری ہیں۔ ہم سب بہن بھائی ہیں، کیونکہ ہم سب بھارت کے شہری ہیں اور یہی مودی جی کا فلسفہ ہے۔‘‘
لیکن مودی حکومت میں تو ایک بھی مسلم وزیر نہیں ہے، حتٰی کہ بی جے پی کا کوئی مسلم رکن پارلیمان بھی نہیں ہے اور لوک سبھا الیکشن کے لیے بھی اس نے صرف ایک مسلمان کو ٹکٹ دیا ہے۔ کیا اس سے یہ نہیں لگتا کہ بی جے پی مسلمانوں کو سیاسی نمائندگی دینا ہی نہیں چاہتی؟ اس سوال کے جواب میں پروفیسر عبدالسلام کہتے ہیں، ''آپ اسے مسلمانوں کے ساتھ تفریق کے نقطہ نظر سے دیکھ سکتے ہیں، لیکن مودی جی اس طرح نہیں سوچتے۔ میرے خیال میں جب انہوں نے مجھے امیدوار بنایا توانہوں نے ذات، فرقہ یا ایسی چیزیں نہیں دیکھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جب وہ کسی شخص کو کسی عہدے کے لیے منتخب کرتے ہیں یا کسی کو کوئی ذمہ داری سونپتے ہیں تو بعض میعارات کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ اس شخص کا کردار، اس کی کارکردگی اور اگر وہ امیدوار ہے تو جیتنے کی صلاحیت، سماج کے تئیں لگن، عوام کے تئیں لگن، کام کرنے کی صلاحیت، جیسے میعارات۔‘‘
مسلمانوں کے متعلق مودی کے حالیہ متنازع بیان کے بارے میں بی جے پی کے واحد مسلم امیدوار عبدالسلام کا کہنا تھا، ''مجھے ایسا نہیں لگتا، مودی جی ایسے انسان نہیں ہیں۔ وہ صرف الیکشن لڑنے والے کانگریسیوں کی فطرت اور ان کی سابقہ کارکردگیوں کی بات کررہے تھے۔ جو مسلم اقلیتوں کو ہمیشہ بے وقوف بناکر اپنا الُو سیدھا کرتے رہے ہیں۔ مودی جی کو مسلمانوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔‘‘
کانگریس اقتدار میں آئی تو ۔ ۔ مودی کے متنازعہ بیان پر ہنگامہ
بی جے پی رہنما نے کہا کہ جہاں تک ''دراندازوں والی بات ہے‘‘ تو یہ ایک سچائی ہے کہ بنگلہ دیشی مسلمان بھارت میں غیر قانونی طورپر داخل ہوتے ہیں اور یہاں رہتے ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ مودی نے اپنی ایک حالیہ انتخابی مہم کے دوران راجستھان میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مبینہ طورپر مسلمان کو سب سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے اور درانداز کہا تھا۔ بھارتی الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے بی جے پی سے جواب طلب کیا ہے۔