بھارت: ’جسم فروشوں کا گاؤں‘ ڈیجیٹل مہارت کی جانب گامزن
10 اکتوبر 2020نوالی گاؤں میں جسم فروشی ایک موروثی پیشہ ہے جو عورتوں کی ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہا ہے۔ شاہی درباریوں کی اولاد خیال کیے جانے والے بنچاڈا قبیلے کی برادریاں اس خطے کے بیس دیہات میں مقیم ہیں۔ اس قبیلے کے بیس ہزار سے زائد افراد میں سے اکثریت خواتین کی ہے۔
نوالی بھارت کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال سے تقریباﹰ 370 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ نیشنل ہائے وے کے ذریعے نوالی تک پہنچنے میں لگ بھگ آٹھ گھنٹے لگتے ہیں۔ اس خطے میں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے ساتھ ساتھ صحت و تعلیم کی سہولیات بھی انتہائی ناقص ہیں۔ یہاں بے روزگاری بہت زیادہ ہے اور زیادہ تر مرد زراعت کے شعبے میں عارضی معاہدوں پر مزدوری کرتے ہیں۔
جسم فروشی سے ڈیجیٹل ہنر تک
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بعض چیزیں بدل رہی ہیں۔ نوالی گاؤں کی نو عمر لڑکیوں نے جسم فروشی کے کاروبار سے انکار کر دیا اور وہ اب ڈیجیٹل اسکلز کی تربیت حاصل کر ہی ہیں۔ نوالی کی اٹھارہ سالہ رہائشی رضیہ بھجدا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اب یہاں لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول جارہی ہیں اور اسی وجہ سے یہ تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔ رضیہ کے بقول، ’’اب ہمیں ملازمتوں کی اشد ضرورت ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھیے: بھارت میں جنسی زیادتی: مجرموں کو نہ سماج کا ڈر، نہ قانون کا خوف
بھارت کے نیشنل ای - گورننس پلان کے تحت دیہی علاقوں میں ڈیجیٹل سہولیات متعارف کرانے کے سلسلے میں گزشتہ برس کامن سروس سینٹر (سی ایس سی) نامی تنظیم نے یہاں کی خواتین اور لڑکیوں کو موبائل فون کی اییپس بنانے، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور سوشل میڈیا کی پیشہ ورانہ تربیت دینے میں مدد فراہم کی تھی۔ تاہم شروعات میں گاؤں کے باشندوں کو اس تبدیلی کے لیے راضی کرنا ایک مشکل عمل تھا۔
سی ایس سی کے چیف آپریٹنگ آفیسر دنیش تیاگی کے مطابق بھارت کے دیہی علاقوں میں روایتی ملازمت یا کاروبار کو تبدیل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ان کے بقول، ’’آپ کو لوگوں کے روایتی طرز عمل اور ذہنیت تبدیلی کرکے ان کے درمیان اعتماد پیدا کرنا ہوتا ہے اور ہم نے ایسا ہی کیا۔‘‘
نوجوان لڑکیوں کے لیے روشن مستقبل
سی ایس سی کی ڈیجیٹل مہم نے اس پسماندہ علاقے کی نوجوان لڑکیوں کو موروثی جسم فروشی کے ماضی سے جان چھڑا کر اپنے بہتر مستقبل کے لیے ایک صحیح سمت کا انتخاب کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ نوالی کی ٹین ایجر لڑکی رانو بھیراگی نے بتایا، ’’اس گاؤں پر لگے بدنما داغ کی وجہ سے کوئی بھی ہماری مدد کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اسی وجہ سے میں نے اسکول چھوڑ دیا تھا۔ لیکن میں اب دوبارہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
مزید پڑھیے: لڑکیاں بدسلوکی کے خوف سے سوشل میڈیا چھوڑنے پر مجبور
امید کی جارہی ہے کہ یہ خواتین اور نوجوان لڑکیاں ڈیجیٹل ہنر کے ساتھ اپنے علاقوں میں جسم فروشی کے کاروبار کو مکمل طور پر ختم کرنے میں مدد کریں گی۔
ع آ / ش ح (مرلی کرشنن)