1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: جہیز کے لیے تشدد اور خود کشی کا سلسلہ جاری

8 جون 2022

راجستھان میں تینوں بہنوں کی شادی ایک ہی خاندان میں ہوئی تھی، جہاں جہیز کے لیے ان پر تشدد روز کا معمول بن گیا تھا۔ تینوں بہنوں نے بالآخر تنگ آکر گزشتہ ہفتے اپنے بچوں سمیت ایک ساتھ خود کشی کرلی۔

https://p.dw.com/p/4COV2
Symbolbild Galgen
تصویر: Nerijus Liobe/Zoonar/picture alliance

راجستھان کی کالو، کملیش اور ممتا مینا جہیز کے لیے تشدد اور خودکشی کا تازہ ترین شکار بن گئیں۔ تینوں کی شادی ایک ہی خاندان میں ہوئی تھی جہاں انہیں جہیز لانے کے لیے مسلسل اذیتیں دی جاتی رہیں۔ چند دنوں قبل ایک ہی کنویں سے ان کی لاشیں ملیں۔ کالو نے اپنے ایک چار سالہ بیٹے اور ایک نو زائیدہ کے ساتھ خود کشی کرلی جبکہ کملیش اور مینا حمل سے تھیں۔ انہوں نے ایک نوٹ چھوڑا تھا جس میں اپنی موت کے لیے اپنے سسرال والوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

ان تینوں بہنوں کے رشتہ داروں نے بتایا کہ ان کے سسرال والے جہیز میں مزید رقم کا مسلسل مطالبہ کررہے تھے جو ان کے والد پورا نہیں کرپارہے تھے۔ اس وجہ سے سسرال والے تینوں پرمسلسل تشدد کرتے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ تینوں بہنیں اچانک لاپتہ ہوگئیں لیکن بعد میں ان میں سے ایک کی طرف سے واٹس ایپ پر ایک میسج ملا جس میں لکھا تھا،"ہمارے سسرال والے ہماری موت کے ذمہ دار ہیں۔ ہم ایک ساتھ جان دے رہے ہیں کیونکہ یہ روز روز مرنے سے بہتر ہے۔"

جے پور کے ایک سینیئر پولیس افسر نے اے ایف پی کو بتایا کہ پولیس معاملے کی جانچ کررہی ہے اور فی الحال اسے خودکشی کا کیس مانا جارہا ہے۔

خودکشی کرنے والی بہنوں کے والد سردار مینا نے بتایا کہ ان کی بیٹوں کی زندگی جہنم بنادی گئی تھی۔ ان کی بیٹیاں آگے پڑھنا چاہتی تھیں لیکن انہیں تعلیم حاصل کرنے سے بھی منع کردیا گیا اور پیسوں کے لیے مسلسل پریشان بھی کیا جاتا تھا۔

پیشے سے کسان سردار مینا نے اے ایف سے بات کرتے ہوئے کہا،"ہم نے سسرال والوں کو پہلے ہی بہت ساری چیزیں دی تھیں۔ وہ سارا سامان آپ ان کے گھر میں دیکھ سکتے ہیں۔" اس میں پلنگ، ٹیلی ویژن سیٹ اور فرج شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا،"میری چھ بیٹیاں ہیں، میرے پاس دینے کی بھی ایک حد ہے میں آخر کتنا دے سکتا ہوں۔ میں نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلائی وہ بھی بڑی مشکل سے۔"

پولیس نے تینوں بہنوں کے شوہروں، ساس اور بھابھی کوجہیز کے لیے استحصال اور اذیت کے الزام کے تحت گرفتار کرلیا ہے۔  اے ایف پی نے سسرال والوں کے رشتہ داروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم کامیابی نہیں ملی۔

Massenhochzeit in Indien
تصویر: Saurabh Das/AP/picture alliance

جہیز قانون بے اثر

بھارت نے 60 بر س سے بھی پہلے جہیز کے لین دین کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور ایسا کرنے والوں کے خلاف مجرمانہ کارروائی کی جاسکتی ہے۔ تاہم جہیز لینے اور دینے کا سلسلہ بالخصوص دیہی علاقوں میں اب بھی برقرار ہے۔ خواتین کو اقتصادی طور پر بوجھ سمجھنا اور بہو کے طور پر انہیں قبول کرنے کے لیے رقم کا مطالبہ کرنا جہیز کی لعنت کے برقرار رہنے کی اہم اسباب ہیں۔

مقامی نیوز چینلوں اور اخبارات میں جہیز کے لیے قتل اور خودکشی کے واقعات کی خبریں آئے دن آتی رہتی ہیں۔

یوں تو ملک میں طلاق کا قانون موجود ہے تاہم سماجی شرمندگی کی وجہ سے بالعموم خواتین طلاق لینے سے گریز کرتی ہیں اور وہ اذیت کی زندگی سے نکلنے کے بارے میں سوچ نہیں پاتیں۔

مینا بہنوں کے میکے والوں کو حالانکہ ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا علم تھا لیکن انہیں سسرال چھوڑنے کا کوئی متبادل دکھائی نہیں دیا۔ ان کے والد سردار مینا کا کہنا تھا،"ہم نے سوچا کہ ان کی شادی ہوگئی تو انہیں اپنے خاندان کی عزت برقرار رکھنے کے لیے اپنے سسرال میں ہی رہنا چاہئے۔ اگر ہم ان کی شادی کسی دوسری جگہ کراتے اور وہاں بھی حالات خراب ہوجاتے تب ہم کیا کرتے۔ ہماری تو ناک کٹ جاتی۔"

Indien Kultur Religion l Traditionelle Hochzeit in Mumbai
تصویر: Fariha Farooqui/Photoshot/picture alliance

گھریلو تشدد کو سماجی قبولیت

بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق سن  2020 میں جہیز کے لیے تقریباً سات ہزار عورتوں کو مار ڈالا گیا، گویا ہر روز 19عورتوں کا قتل کیا گیا۔ بیورو کے مطابق اس دوران جہیز سے متعلق معاملات کی وجہ سے 1700 سے زائد عورتوں نے خود کشی کرلی۔

یہ دونوں اعداد و شمار پولیس کی طرف سے فراہم کردہ رپورٹوں کی بنیاد پر ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ بیشتر خاندان سماجی بدنامی اور دیگر اسباب کی بنا پر ایسی اموات کی رپورٹ درج نہیں کراتے ہیں۔

پیپلز یونین فار سول لبرٹیز نامی غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ کویتا سریواستو کہتی ہیں "ہر گھنٹے میں 30 سے 40 عورتیں اپنے سسرال میں تشدد کا نشانہ بنتی ہیں اور یہ تو صرف درج کرائے گئے کیسز کی تعداد ہے۔ اصل کیسز تو اس سے بہت زیادہ ہوں گے۔"

کویتا سریواستو کہتی ہیں کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بھارت میں گھریلو تشدد کو بڑے پیمانے پر سماجی قبولیت حاصل ہے جس کی وجہ سے خواتین خود کو اذیت ناک اور پرتشدد رشتوں میں پھنسا ہوا محسوس کرتی ہیں۔ مینا بہنوں کے ساتھ بھی ایسا ہی تھا۔

کویتا کا کہنا تھا، "اگر ایک عورت کو بھی ایسا محسوس ہونے پرکہ اس کی شادی شدہ زندگی تباہ ہوگئی ہے، خودکشی کرنا پڑے تو مجھے لگتا ہے کہ بھارت ایک ملک کے طور پر خواتین کے لیے ناکام ہوچکا ہے۔"

ج ا/  ص ز (اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں