بھارت: جی ٹوئنٹی اجلاس میں تقسیم اور شدید اختلافات
18 جولائی 2023جی ٹوئنٹی ممالک کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے سربراہان کے مابین ہونے والے اس اجلاس کی میزبانی بھارت کر رہا ہے۔ بھارت کو امید تھی کی اس اجلاس کے دوران قرضوں کے معاہدوں کی تنظیم نو اور کثیر الجہتی بینک اصلاحات پر اتفاق کے ساتھ ساتھ کریپٹو کرنسی کے حوالے سے رہنما اصول وضع کر لیے جائیں گے لیکن روس یوکرین تنازعے نے ایسی تقسیم پیدا کی ہے کہ کوئی مشترکہ اعلامیہ بھی جاری نہیں ہو گا۔
گاندھی نگر میں ایک بھارتی عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ''ہمارا تمام ایجنڈا آگے بڑھ رہا ہے اور سب نے اسے قبول کیا ہے۔‘‘ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ روس کی یوکرین جنگ کے مسئلے کی وجہ سے واضح تقسیم موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس سمیت بیشتر مغربی ممالک نے یوکرین جنگ کی وجہ سے روس کی سخت مذمت کی ہے جبکہ روس اور اس کا دوست ملک چین ایسے کسی بھی اقدام کے مخالف ہیں۔ اسی وجہ سے بھارت بطور میزبان ملک تمام اراکین کے لیے قابل قبول حتمی اعلامیے کا مسودہ تیار کرنے میں ناکام رہا ہے۔
بھارت میں جی ٹوئنٹی اجلاس اور عالمی قرضوں کا مسئلہ
اس بھارتی اہلکار نے مزید بتایا ہے کہ کچھ ممالک کا اصرار ہے کہ مسودے میں مسئلہ یوکرین کے لیے باقاعدہ ''جنگ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جائے جبکہ روس اس کے لیے ''اسپیشل ملٹری آپریشن‘‘ کا لفظ استعمال کرنا چاہتا ہے۔
بھارت نے خود بھی ابھی تک اس تنازعے میں ''نیوٹرل پوزیشن‘‘ اختیار کر رکھی ہے۔ مغربی ممالک کے دباؤ کے باوجود اس نے ابھی تک روس کی مذمت نہیں کی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ اس تنازعے کا سفارتی حل نکالا جانا ضروری ہے۔ بھارت نے روس سے سستے خام تیل کی خریداری میں بھی اضافہ کر رکھا ہے۔
بھارت جی ٹوئنٹی سربراہی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے، بلاول بھٹو زرداری
مغربی ریاست گجرات میں ہونے والا یہ اجلاس بھارت کی صدارت میں جی ٹوئنٹی کا تیسرا فنانس ٹریک اجلاس تھا لیکن جی ٹوئنٹی کی صدارت سنبھالنے کے بعد سے بھارت ایسے کسی بھی بڑے اجلاس میں مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اس دو روزہ اجلاس کا ایک بنیادی مقصد مختلف ممالک کے بڑھتے ہوئے قرضوں سے منسلک پیچیدہ مسائل پر اتفاق رائے میں سہولت کاری فراہم کرنا بھی تھا۔ لیکن اس حوالے سے بھی چین کے کچھ اعتراضات ہیں۔ چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہونے کے ساتھ ساتھ ایشیا اور افریقہ کے متعدد کم آمدنی والے ممالک کے لیے ایک بڑا قرض دہندہ ہے۔ حکام کے مطابق چین ابھی تک اس معاملے پر مشترکہ کثیرالجہتی مفاہمت کے خلاف ہے۔
ا ا / ک م (اے ایف پی، اے پی)