بھارت: خواتین کا کردار ذات پات اور طبقے پر منحصر ہے
16 مارچ 2018بھارت کی نیشنل لا اسکول آف انڈیا یونیورسٹی کی پروفیسر، وی ایس ایلیزبتھ نے ڈی ڈبلیو کے نمائندے مارٹن مائیز کو بھارت میں خواتین کی صورتحال پر ایک خصوصی انڑویو دیا۔
ڈی ڈبلیو: بھارتی معاشرے میں ایک عورت کے کردار کو آپ کس طرح بیان کریں گی؟
وی ایس ایلیزبتھ: بھارت میں خواتین کا کردار علاقے، رتبے، ذات پات یہاں تک کہ مذہب کی بنیاد پر مختلف ہے۔ اعلیٰ ذات اور متوسط طبقے کی خواتین کے پاس تعلیم اور ملازمت کے حوالے سے زیادہ مواقعے ہیں۔ تاہم نچلی ذات اور رتبے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ان خواتین کا ایک مختلف کردار نظر آئے گا۔ انہیں نہ صرف سخت ترین محنت کرنی پڑتی ہے بلکہ انہیں زیادہ آزادی بھی میسر نہیں۔ اور پھر بات جب تشدد کی آتی ہے تو اس کا ان خواتین کو سب سے بھیانک تجربہ ہوتا ہے۔ لیکن اب متوسط طبقے کی ایسی خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے جو ان رکاوٹوں کو عبور کر رہی ہیں۔ اب خواتین صنعتوں اور سروس سیکٹر میں نظر آنے لگی ہیں لیکن یہ تعداد پھر بھی کم ہے یعنیٰ مجموعی افرادی قوت میں سے صرف 25 سے 35 فیصد تعداد خواتین کی ہے۔ ان میں سے بھی 90 فیصد خواتین غیر منظم سیکٹر میں جبکہ صرف دس فیصد خواتین تعلیم یافتہ ہونے کے باعث بہتر پوزیشن پر کام کر رہی ہیں۔
ڈی ڈبلیو: کیا وجہ ہے کہ بھارت میں والدین لڑکیوں کے بجائے لڑکوں کے پیدا ہونے کی خواہش کرتے ہیں؟
وی ایس ایلیزبتھ: اس کی وجہ ہمارے معاشرے کا کلچر ہے۔ گو کہ ہم معاشی اعتبار سے بہت ترقی کر چکے ہیں، ثقافتی اور سماجی اعتبار سے ابھی تک آزادی سے قبل کی اقدار کو تھامے ہوئے ہیں۔ بیٹے کی خواہش ہندو اس لیے کرتے ہیں کیونکہ بیٹیوں کی جانب سے مذہبی رسومات کی ادائیگی ان کے مذہب کا لازمی جُز ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ بھارت ابھی بھی مردانہ اجاراہ داری رکھنے والا معاشرہ ہے جہاں یہ خیال غالب ہے کہ خاندان کا نام یا والد کا نام آگے بڑھانے کے لیے بیٹے کا ہونا ضروری ہے۔
اور تیسری وجہ جہیز کا معاملہ ہے۔ اگر آپ بیٹی کی شادی کر رہے ہیں تو اس کے لیے دولہے اور اس کے گھر والوں کو نہ صرف بڑی رقم بلکہ جائیداد میں سے بھی حصہ دینا پڑتا ہے۔ یہاں شادی ایک نہایت مہنگا کام ہے جس میں پیسے اور اکثر واقعات میں گھر، زمین، گاڑی دیگر قیمتی تحائف دولہے اور اس کے خاندان کو دینا پڑتی ہیں۔
خواتین کی سلامتی کے لیے اقدامات کیے جائیں، مودی سے مطالبہ
نئی دہلی: خواتین کے خلاف جرائم، لیڈیز پولیس کا خصوصی اسکواڈ
ڈی ڈبلیو: بھارت میں حالیہ برسوں میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے کیا تبدیلیاں آئی ہیں خصوصاﹰ 2012 میں دہلی کی ایک بس میں ہوئے اجتماعی زیادتی کے واقعے پر بین الاقوامی توجہ کے پس منظر میں ؟
وی ایس ایلیزبتھ: خواتین پر ہونے والے جنسی تشدد کی روک کے لیے بھارت پر بین الاقوامی دباؤ سے زیادہ دہلی کے عوام کا دباؤ قابل ذکر ہے۔ یہ آزادی کے بعد پہلی بار ملک میں چلائی گئی سول سوسائٹی تحریک تھی اور اسی وجہ سے حکومت نے فوری طور پر ردعمل ظاہر کیا اور مارچ 2013 میں کرمنل قانون میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔ قانونی لحاظ سے تو کئی تبدیلیاں نظر آئی لیکن در حقیقت معاشرتی سطح پر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ خواتین کے خلاف تشدد جاری ہے، ان پر جنسی تشدد بھی جاری ہے۔ اب بھی مجرم قرار دیے جانے اور اس متعلق جرم رپورٹ کیے جانے کا عمل بھی تاحال بہت کم ہے۔