بھارت: سری نگر کا ہسپتال زخمیوں سے بھر گیا
19 اگست 2016بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جمعے کے روز بھی سکیورٹی فورسز کی جانب سے گھر گھر تلاشی کا عمل جاری رکھا گیا۔ گھر گھر اس تلاشی کا مقصد ان افراد کو حراست میں لینا تھا، جو حکومت مخالف احتاججی مظاہروں کو منظم کرنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ آج کم از کم بیس مقامات پر سرکاری فورسز نے مظاہرین کو روکنے کے لیے آنسو گیس اور شاٹ گنز کا استعمال کیا، جس کی وجہ سے کم از کم چالیس شہری زخمی ہو گئے جبکہ ایک زخمی کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔
آٹھ جولائی کو باغیوں کے رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے اب تک بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کم از کم پینسٹھ افراد ہلاک جبکہ چھ ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اس مسلم اکثریتی علاقے میں زیادہ تر افراد حکومتی فورسز کی طرف سے فائر کی گئی گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے ہیں۔
سری نگر کے مرکزی ایس ایم ایچ ایس ہسپتال میں نیوز ایجنسی روئٹرز کے فوٹوگرافر کی طرف سے لی گئی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ مردوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کی کمروں اور کولہوں پر تشدد کے نشانات ہیں۔ دریں اثناء بھارتی فوج نے شبیر احمد منگو کی زیر حراست ہلاکت پر معافی مانگ لی ہے۔ قبل ازیں ایک کالج کا یہ تیس سالہ استاد سکیورٹی فورسز کی تحویل میں تشدد کی وجہ سے ہلاک ہو گیا تھا۔ ایک بیان کے مطابق بھارت کی ناردرن آرمی کے کمانڈر نے زیر حراست تشدد کی مذمت کرتے ہوئے انکوائری کا حکم جاری کر دیا ہے۔
جمعے کو سری نگر میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا کا کہنا تھا، ’’اس طرح کے افعال ناقابل قبول ہیں اور ان اعمال کو کسی بھی طور قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘
دوسری جانب سری نگر کے مرکزی ہسپتال کے ڈاکڑوں کا کہنا ہے کہ وہ تھک چکے ہیں اور یہ کہ انہوں نے گزشتہ ایک ماہ سے آنکھوں کے اتنے زیادہ آپریشن کیے ہیں، جتنے کہ گزشتہ تین برسوں میں نہیں کیے گئے تھے۔ ایس ایم ایچ ایس کے سینیئر ڈاکٹر نثار الحسن کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی دباؤ کا شکار ہیں۔‘‘
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انہیں ایسی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ ہسپتال کے عملے اور ایمبولینس ڈرائیوروں کو بھی راستے میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سرکاری فورسز نے علیحدگی پسندوں کے ایک جلوس کو روکنے کے لیے سڑکوں پر خار دار تاروں کے ساتھ ساتھ فولادی رکاوٹیں بھی کھڑی کر دیں۔
جمعے کو مظاہرین اُس گاؤں کی جانب مارچ کرنا چاہتے تھے، جہاں فوجی دستوں نے رواں ہفتے کے آغاز پر چار شہریوں کو ہلاک اور پندرہ کو زخمی کر دیا تھا۔ گزشتہ چھ ہفتوں سے اس متنازعہ خطّے میں کرفیو نافذ ہے اور بھارتی فورسز کے ہزارہا سپاہی گشت پر ہیں تاہم وہ بھارت مخالف مظاہروں کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔