بھارت: عام انتخابات کے لیے فیس بک کی نئی پالیسی
8 فروری 2019فیس بُک نے اپنی اس نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس سے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت کی انتخابی مہم میں زیادہ شفافیت آئے گی۔ اکیس فروری سے نافذ ہونے والی اس نئی پالیسی کا اطلاق اس کمپنی کی ایک اور مقبول ایپ انسٹاگرام پر چلائی جانے والی سیاسی مہم پر بھی ہوگا۔
امریکی آن لائن سوشل میڈیا اور سوشل نیٹ ورکنگ سروس کمپنی فیس بک نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا ہے، ’’مشتہرین کی بے نامی کو ختم کرنے اور انتخابی مہم میں شفافیت لانے کے لیے اب اس کے صارفین سیاسی اشتہارات کے ساتھ ’شائع کردہ‘ یا ’رقم ادا کرنے والا‘ جیسے الفاظ دیکھ سکیں گے۔ ا س سے لوگوں کو زیادہ بہتر طور پر یہ پتہ چل سکے گا کہ مذکورہ اشتہار دینے والا کون ہے۔‘‘
نئی پالیسی کے تحت فیس بک سیاسی اشتہارات کو دکھانے والے پیج کی پرائمری لوکیشن بھی بتائے گا تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ اس پلیٹ فارم پر صرف حقیقی مہم ہی چلائی جارہی ہے۔ یوزر ایک سرچ ایبل لائبریری تک رسائی حاصل کرکے یہ بھی معلوم کرسکیں گے کہ ا ن کو کتنے لوگوں نے دیکھا ہے۔ فیس بک اس سے قبل یہ طریقہ امریکا، برازیل اور برطانیہ میں اپناچکا ہے۔
بھارت میں فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ کواپنے سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم پر پوسٹ ہونے والے فرضی اور غیر مصدقہ خبروں پر قابو پانے میں ناکام رہنے کی وجہ سے گزشتہ چند ماہ کے دوران زبردست تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خاص طورپر فیس بک کی گزشتہ سال ہجومی تشدد کے متعدد واقعات وائرل ہونے کی وجہ سے اس پر خاصی نکتہ چینی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ حکومت نے بھی پچھلے دنوں سوشل میڈیا کمپنیوں کو سخت وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ان کے ذریعہ غلط طریقے سے انتخابی عمل کو متاثر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
فیس بک انڈیا کے پبلک پالیسی ڈائریکٹر شیو ناتھ ٹھکرال نے نئی پالیسی کے اعلان کے دوران میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’انتخابات میں ایمانداری کو یقینی بنانا فیس بک کی اولین ترجیح ہے۔ فیس بک پر سیاسی اشتہارات اور پیجز میں مزید شفافیت لانے سے ہمیں امید ہے کہ مشتہرین کے احتساب میں بھی اضافہ ہوگا اور لوگ جس مواد کو دیکھ رہے ہوں گے، انہیں اس کا تجزیہ کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘ ٹھکرال کا مزید کہنا تھا، ’’اس نئی پالیسی میں وہ تمام اشتہارات شامل ہوں گے جن میں سیاسی شخصیات، سیاسی جماعتوں اور الیکشن کا حوالہ ہوگا۔‘‘
خیال رہے کہ بھارت میں فیس بک کے تین سو ملین سے زیادہ یوزر ہیں جب کہ وائٹس ایپ استعمال کرنے والوں کی تعداد دو سو ملین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں سوشل نیٹ ورکنگ کے ان پلیٹ فارموں کے ذریعہ ووٹروں تک پہنچنے اور انہیں متاثر کرنے کے لیے تمام طرح کے حربے اپناتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 2014ء کے عام انتخابات میں نریندر مودی کی مقبولیت اور ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی زبردست کامیابی میں سوشل میڈیا کے نہایت پیشہ ورانہ اور مہارت کے ساتھ استعمال نے اہم رول ادا کیا تھا۔
اس سال ہونے والے عام انتخابات کے لیے بھی سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کے استعمال کے اپنے اپنے طریقوں کو حتمی شکل دے رہی ہیں۔ بھارتی صنعت کے اندازے کے مطابق سیاسی جماعتیں 2019ء کے عام انتخابات میں تقریباً تیس ارب روپے یا چارسوبیس ملین ڈالر خرچ کریں گی جو 2014ء کے الیکشن پر ہونے والے اخراجات کا تقریباً دوگنا ہے۔ ایڈورٹائزنگ سے وابستہ اداروں کے اندازوں کے مطابق تقریباً آٹھ ارب روپے ڈیجیٹل میڈیا میں اشتہارات پر خرچ کیے جائیں گے اور اس معاملے میں بی جے پی اس بار بھی دیگر جماعتوں پر سبقت لے جائے گی۔
بھارت میں سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز اور گمراہ کن اشتہارات کے خلاف کارروائی کے لیے یوں تو انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے تحت ضابطے موجود ہیں، لیکن ان پر شاذ ونادر ہی عمل ہوپاتا ہے۔ واٹس ایپ کے کمیونیکیشن ہیڈ کارل ووگ نے گزشتہ دنوں یہاں ایک پروگرام کے دوران کہا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے ذریعے ان کے پلیٹ فارم کا غلط استعمال کرنے کے کئی معاملے سامنے آئے ہیں: ’’کمپنی سیاسی جماعتوں سے اس سلسلے میں بات چیت کر رہی ہے اور انہیں بتا رہی ہے کہ اس طرح کے غلط استعمال سے ان کے اکاونٹ بند کیے جاسکتے ہیں۔‘‘
نئی دہلی سے سرگرم ایڈوکیسی گروپ انٹرنیٹ فریڈم فاونڈیشن کے ڈائریکٹر اپار گپتا کا کہنا ہے، ’’سوشل میڈیا کے ذریعے گمراہ کن اطلاعات اور بھارتی جمہوریت پر پڑنے والے اس کے مضمرات کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں پہلے سیاسی جماعتوں کو دیکھنا ہوگا، سوشل میڈیا کا اس پورے معاملے میں رول بہت زیادہ نہیں ہے۔ سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کے کنٹریکٹروں اور آئی ٹی سیل کو منضبط کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ جس سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے انتخابات میں شفافیت اپنے آپ جائے گی۔
دریں اثنا الیکشن کمیشن آف انڈیا نے وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ اسے انتخابی عمل کو متاثر کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف براہ راست قانونی کارروائی کرنے کے اختیارات دیے جائیں۔ سوشل میڈیا کمپنیوں کے حوالے سے انفارمیشن ٹیکنالوجی قانون میں بعض ترامیم ان دنوں زیر غور ہیں۔