بھارت: مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی کوشش؟
19 جولائی 2024ریاست اترپردیش کی پولیس نے مظفرنگر ضلعے میں ایک حکم نامہ جاری کرکے کانوڑ یاترا کے راستے میں واقع تمام دکانوں اور ٹھیلوں پر ان کے مالکان کا نام لکھنے کی ہدایت دی تھی۔
اپوزیشن جماعتوں نے اسے مسلم مخالف اور مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ کرنے کی عملاً کوشش قرار دیا، جب کہ ہندوقوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حلیف جماعتوں جنتا دل یونائیٹیڈ اور راشٹریہ لوک دل نے بھی اس فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے۔
کیا بھارت میں مسلمانوں کے لیے زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے؟
بھارت: مسلمانوں کے متعلق سپریم کورٹ کا ایک اور متنازعہ فیصلہ
خیال رہے کہ ہندو عقیدت مند ساون کے مہینے میں دریائے گنگا سے پانی لے کر بھگوان سمجھے جانے والے شیو کی مورتی پر چڑھاتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں اس رجحان میں کافی اضافہ ہوا ہے اور گروپ کی شکل میں نوجوان ڈھول باجے کے ساتھ میلوں سفر کرتے ہیں۔ اس دوران بعض اوقات کشیدگی اور تشدد کے واقعات بھی رونما ہوتے رہے ہیں۔ اس سال کاونٹر یاترا 22 جولائی سے شروع ہو رہی ہے۔
'یہ حکم نامہ تو نازی جرمن جیسا ہے! '
پولیس کے اس حکمنامے پر مختلف حلقوں کی جانب سے شدید نکتہ چینی کی جارہی ہے۔ اپوزیشن کانگریس، سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہی حکمراں بی جے پی کے اتحاد میں شامل کئی جماعتوں نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔ مذہبی اور شہری آزادیوں کے لیے سرگرم تنظیموں نے بھی اس حکمنامے کو افسوس ناک اور بھارتی سماج میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش قرار دیا۔
'میں کبھی ہندو مسلم نہیں کرتا اور نہ ہی کروں گا'، وزیر اعظم مودی
مذہبی آزادی پر امریکی رپورٹ میں بھارت کی سرزنش
کانگریس کے قومی ترجمان پون کھیڑا نے اسے مسلمانوں اور دلتوں کے معاشی بائیکاٹ کی سمت اٹھایا گیا قدم قرا ردیا۔ انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا "ملک کے بڑے (گائے کا) گوشت کے ہندو برآمد کنندگان جب گوشت فروخت کرتے ہیں تو یہ دال چاول میں بدل جاتا ہے لیکن اگر مسلمان آم امرود بھی فروخت کرتے ہیں تو یہ گوشت قرار پاتا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ کھانے کی دکانوں پر حلال یا نان ویج یا ویجیٹرین کا بورڈ ہونے سے لوگوں کو اپنی پسند کا کھانا منتخب کرنے میں سہولت ہوتی ہے لیکن مالکان کا نام لکھنے سے کس کو فائد ہوگا؟ "یہ بھارت کی تہذیب پر حملہ ہے۔"
نغمہ نگار اور سابق رکن پارلیمان جاوید اختر نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنے ردعمل میں سوال کیا کہ آخر مظفر نگر کی پولیس نے اس طرح کا حکم نامہ کیوں جاری کیا؟ انہوں نے کہا،" نازی جرمنی میں بھی مخصوص دکانوں اور مکانات کی نشاندہی کے لیے نشانات لگائے جاتے تھے۔"
آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی کا کہنا تھا، "نسل پرستی کے دور میں جنوبی افریقہ میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا اور ہٹلر کے جرمنی میں بھی یہی رواج تھا۔"
سماج وادی پارٹی کے سربراہ اور اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے سپریم کورٹ سے اس معاملے کا از خود نوٹس لینے کی اپیل کی اور قصور واروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔
پولیس کا حکمنامہ اور وضاحتی بیان
مظفر نگر کے سینئیر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے بدھ کے روز ایک حکمنامہ جاری کیا تھا جس میں کہا تھا کہ کانوڑ یاترا کے روٹ پر واقع کھانے پینے کی تمام دکانوں، ڈھابوں اور پھل وغیرہ کے اسٹالوں کے باہر ان کے مالکان کے نام لازماً لکھے جائیں تاکہ لوگوں کو کوئی کنفیوژن نہ ہو اور شفافیت یقینی بنائی جاسکے۔
ہریانہ میں مسلمانوں کی نسلی تطہیر کی جارہی ہے؟ بھارتی عدالت
دراصل یاترا میں حصہ لینے والے ہندو عقیدت مندوں کا کہنا ہے کہ وہ اس دوران کھانے پینے کی بعض چیزوں اور بالخصوص نان ویج کھانوں سے اجتناب کرتے ہیں۔
مختلف حلقوں حتیٰ کہ بعض ہندو مذہبی رہنماوں کی طرف سے اس حکمنامے کی مخالفت کے بعد پولیس نے جمعرات کو ایک وضاحتی بیان جاری کرکے کہا کہ اس کا مقصد مذہبی تفریق پیدا کرنا قطعی نہیں تھا بلکہ یہ حکم عقیدت مندوں کی سہولت کے لیے جاری کیا گیا تھا۔ پولیس نے اب ایک ایڈوائزی جاری کرکے کہا ہے کہ دکانوں پر نام لکھنا" مالکان کی مرضی پر منحصر" ہو گا۔
بی جے پی نے پولیس کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ نے ایکس پر لکھا کہ اس حکم نامے سے نام نہاد سیکولرسٹوں کو اس لیے تکلیف ہورہی ہے کیونکہ،"بعض مسلمان ہندو نام کی آڑ میں تجارت کرتے ہیں۔ جس سے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور بعض اوقات معاملہ تبدیلی مذہب تک پہنچ جاتاہے۔"