بھارت میں خاتون اسپیکر، ایک خوش آئند تبدیلی
25 جون 200964 سالہ میرا کمار کا بھارت کی پہلی خاتون اسپیکر بننا نہ صرف اس لئے دلچسپ ہے کہ وہ بلا مقابلہ منتخب ہوئیں بلکہ ہر کسی کی دلچسپی اس تا ریخی واقعے میں اس لئے غیر معمولی ہے کہ میرا کمار کا تعلق بھارت کی معاشرتی طور پر سب سے نیچے سمجھی جانے والی ذات دلت سے ہے۔
بھارت کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں پہلی بار ایک خاتون اسپیکر کے اس اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کی خبر کو جنوبی ایشیا کی ایک ایٹمی طاقت اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کے اندر اور اس سے باہر بھی ایک خوش آئند تبدیلی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
3 جون کو بھارتی پارلیمان نے پہلی بار ایک خاتون اسپیکر کو منتخب کیا۔ ان کا نام ہے میرا کمار اور یہ بھارت کے ایک معروف سیاستدان اور سابق نائب وزیر اعظم بابو جگ جیون رام کی صاحبزادی ہیں۔ ان کا تعلق دلت یا بھارت میں پائے جانے والی 4 ذاتوں میں سے نچلی یا معاشرتی طور پر سب سے نیچے تصور کی جانے والی ذات سے ہے۔ 64 سالہ میرا کمار لوک سبھا کی اسپیکر کی حیثیت سے بلا مقابلہ منتخب ہوئی ہیں۔ انہوں نے لوک سبھا کے سابق اسپیکر سومناتھ چیٹرجی کی جگہ لی ہے، جن کا تعلق ہندو مت کی سب سے اونچی گردانی جانےوالی ذات برہمن سے ہے۔ سومناتھ چیٹر جی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے ایک نمایاں لیڈر رہے ہیں تاہم انہیں گزشتہ سال پارٹی قیادت کے تنازعے کے سبب پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ اس بار کے پارلیمانی انتخابات میں ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں 545 میں سے 58 نشستیں خواتین کو ملی ہیں۔
میرا کمار کے اسپیکر منتخب ہونے پر وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اپنے سرکاری بیان میں مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ میرا کمار کے توسط سے بھارتی خواتین کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جنہوں نے بھارت کے لئے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اپوزیشن پارٹی بی جے پی کے لیڈر ایل کے ایڈوانی نے بھی دیگر قانون سازوں سمیت میرا کمار کی کامیابی کو بھارت کے لئے خوش آئند قرار دیا۔ میرا کمرا پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل ہیں۔ یہ پارلیمان میں 5 بار ممبر کی حیثیت سے منتخب ہو چکی ہیں۔ میرا سماجی اور انصاف کے امور کی وزیر بھی رہ چکی ہیں۔ انہوں نے سیاسی زندگی میں قدم رکھنے کے لئے اپنے سفارتکاری کے کیریئر کو ترک کر دیا۔
بھارت کے سیاسی حلقوں میں میرا کمار کے اسپیکر بننے کے عمل کو کانگریس پارٹی کے امیج میں واضح بہتری کے امکان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کیونکہ اس سے کانگریس کے بارے میں حقوق نسواں کی علمبردار اور نیچی ذاتوں کو تحفظ فراہم کرنے والی پارٹی ہونے کا تاثر ملتا ہے۔ تاہم بھارت میں کئی سیاسی جماعتیں عورتوں کی اس بڑی سیاسی کامیابی سے خوش نہیں ہیں۔ ان میں RSS خاص طور سے قابل ذکر ہے۔ اس کے لیڈر مرلی منوہر جوشی اور لال مانی چوبھی نے تو یہاں تک کہا کہ عورتوں کے لئے پارلیمان کی مخصوص نشستیں زیاں کے سوا کچھ نہیں۔
بھارت میں بعض جماعتوں کے لئے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ عورتوں کو محض ان نشستوں کے لئے نامزد کرتی ہیں، جن کے بارے میں انہیں یقین ہوتا ہے کہ ان کا مرد امیدوار ہار جائے گا۔ میرا کمار کے انتخاب کے بعد گرچہ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اور وزیر مالیات پرناب مکھر جی نے کہا کہ وہ لوک سبھا کو رکاوٹی بحث و مباحثے کے بجائے مثبت بحث اور گفتگو کا مرکز بنائیں گے۔ تاہم اس کے بارے میں بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی جمہوریت میں ایسا ممکن نہیں۔ یاد رہے کہ بھارت کی پارلیمان میں زیادہ تر خواتین اکابرین طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔
رپورٹ : کشور مصطیٰ
ادارت : امجد علی