بھارت میں خالصتان کے لیے ریفرنڈم کی کال، سکیورٹی میں اضافہ
9 مئی 2022بھارتی ریاست ہماچل پردیش میں نو مئی پیر کی صبح ریاستی اسمبلی پر خالصتان کی حمایت میں پرچم لہراتے اور عمارت کی دیواروں پر ریفرنڈم کرانے کے حق میں بہت سے نعرے لکھے ہوئے دیکھے گئے۔ ریاستی حکومت نے اس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔
چند روز قبل ہی ریاست پنجاب کے شہر پٹیالہ میں بھی خالصتان کی حمایت اور اس کی مخالفت میں سخت گیر ہندوؤں اور سکھوں کے درمیان پر تشدد مظاہرے ہوئے تھے۔ بھارت میں سکھوں کا ایک گروپ اپنے لیے ایک علیحدہ ریاست ’خالصتان‘ کے قیام کی حمایت میں مہم چلاتا رہا ہے۔
تازہ ترین واقعہ کیا ہے؟
تازہ ترین واقعے میں ریاست پنجاب سے متصل ریاست ہماچل پردیش کی اسمبلی کی عمارت پر خالصتان کے پرچم لہرا دیے گئے اور عمارت کی دیواروں پر جو نعرے درج کیے گئے، اس میں چھ جون کو سکھوں کی ایک علیحدہ ریاست کے قیام کے لیے کرائے جانے والے ریفرینڈم میں سکھوں سے شرکت کی استدعا کی گئی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اسمبلی کی عمارت پر یہ کام رات گئے تاریکی میں یا پھر علی الصبح کیا گیا۔ حکام نے گرافیٹی کو مٹانے کے ساتھ ساتھ اسمبلی کی عمارت پر لہرائے گئے پرچم بھی اتار لیے اور ساتھ ہی تمام سرکاری عمارتوں کی سکیورٹی بڑھاتے ہوئے ریاستی سرحدوں کو بھی سیل کر دیا گیا۔
ریاستی پولیس کے سربراہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گيا، ’’ہماچل پردیش میں خالصتان کی حامی تنظیم ’سکھ فار جسٹس‘ (ایس جے ایف) نے چھ جون کو جس مبینہ ریفرنڈم کے انعقاد کی تیاری شروع کی ہے، اس کی وجہ سے لاحق خطرات کے پیش نظر پولیس کو ہائی الرٹ پر رہنے کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔‘‘
پولیس کے بیان میں مزید کہا گيا کہ پڑوسی ریاستوں میں خالصتان کے حامی عناصر کی سرگرمیوں کے پیش نظر گزشتہ ماہ اونا ضلع میں بھی خالصتان کے بینر لہرائے جانے کے واقعات پیش آئے تھے اور اب اسی ضمن میں دھرم شالہ میں اسمبلی کی بیرونی حدود میں بھی خالصتان کے بینر لگائے جانے اور گرافیٹی کے واقعات پیش آئے ہیں۔ ’’اس وجہ سے پولیس نے ریاست میں سکیورٹی بڑھا دی ہے اور بین الریاستی سرحدیں بھی سیل کر دی گئی ہے۔ ساتھ ہی تمام اہم سرکاری عمارات کی سکیورٹی میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔‘‘
وجوہات کیا؟
اطلاعات کے مطابق ہماچل پردیش میں بی جے پی کی حکومت نے حال ہی میں گاڑیوں پر سکھوں کے ایک مقبول سابق علیحدگی پسند رہنما بھنڈرانوالا کی تصاویر اور خالصتان کے پرچم لگانے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اسی کے رد عمل میں سکھوں کی ممنوعہ تنظیم ’سکھ فار جسٹس‘ نے یہ تازہ اقدامات کیے ہیں۔
ریاستی وزیر اعلیٰ جے رام ٹھاکر نے اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا، ’’میں رات کی تاریکی میں اسمبلی کمپلیکس کے گیٹ پر خالصتان کے جھنڈے لہرائے جانے کے بزدلانہ واقعے کی مذمت کرتا ہوں۔ اس اسمبلی میں تو صرف سرمائی اجلاس ہوتا ہے، اس لیے اس دوران مزید حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہے۔‘‘
انہوں نے اپنی ایک دوسری ٹویٹ میں لکھا، ’’یہ بزدلانہ حرکت ہے، لیکن ہم اسے برداشت نہیں کریں گے۔ اس واقعے کی فوری تحقیقات کرائی جائیں گی اور قصور وار افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ میں ان لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ میں ہمت ہے، تو پھر دن کی روشنی میں باہر نکلیں، رات کے اندھیرے میں نہیں۔‘‘
خالصتان تحریک ایک بار پھر سرخیوں میں
ابھی چند روز پہلے ہی کی بات ہے کہ ریاست پنجاب کے مشہور شہر پٹیالہ میں خالصتان کی مخالفت میں ہونے والے ایک مارچ کے دوران سکھوں اور ہندو گروپوں میں تصادم کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے تھے۔ تب حکام کو سماجی تناؤ کے سبب انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کو پوری طرح سے معطل کرنا پڑ گیا تھا۔
بھارتی ریاست پنجاب میں علیحدگی پسندوں کی خالصتان تحریک کے حامی 29 اپریل کو علامتی طور پر یوم خالصتان مناتے ہیں۔ اسی مناسبت سے ہندو گروپوں نے اس تحریک کی مخالفت میں پٹیالہ میں 'خالصتان مردہ باد‘ کے عنوان سے ایک ریلی کا اہتمام کیا تھا۔ لیکن جب 'خالصتان مردہ باد‘ مارچ شہر کے مرکز میں پہنچا، تو وہاں بڑی تعداد میں مقامی سکھ باشندے اس کی مخالفت میں باہر نکل آئے اور یوں دونوں گروپوں کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں۔
خالصتان تحریک کتنی پرانی؟
بھارتی صوبے پنجاب کو سکھوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست خالصتان بنا دینے کے حق میں سیاسی مہم کافی پرانی ہے اور اس تحریک سے وابستہ بیشتر رہنما امریکا، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں رہ کر یہ مہم چلاتے ہیں۔
خالصتان تحریک کی حامی ایک معروف تنظیم 'سکھ فار جسٹس‘ (ایس ایف جے) بھی ہے۔ اس تنظیم کے ایک رہنما گرپتونت سنگھ پنّو آج کل خالصتان کے حق میں مہم کے روح رواں ہیں اور وہی ریفرنڈم کے حوالے سے مہم بھی چلا رہے ہیں۔ حکومت نے ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کر رکھا ہے۔
گزشتہ برس انہوں نے اپنی ایک ویڈیو کال میں اعلان کیا تھا کہ اگر کوئی شخص بھارتی پارلیمان پر خالصتان کا پرچم لہراتا ہے، تو اسے سوا لاکھ امریکی ڈالر بطور انعام دیے جائیں گے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں اسی تنظیم نے ایک آن لائن ریفرنڈم کا اعلان بھی کیا تھا، جس میں اس بات کا فیصلہ کیا جانا تھا کہ آیا پنجاب میں سکھوں کی الگ اور خود مختار ریاست قائم کی جانا چاہیے۔
’سکھ فار جسٹس‘ نامی تنظیم نے 18 برس سے زائد عمر کے تمام سکھ شہریوں سے اس ریفرنڈم میں رائے دہی کی اپیل کی تھی۔