بھارت میں زبانوں کا مسئلہ
16 نومبر 2009جنوبی ایشیا میں زبان کا مسئلہ خاصا حساس رہا ہے۔ ماضی میں اردو بنام بنگلہ پاکستان کے دولخت ہونے کی ایک اہم وجہ رہی ہے۔ دوسری طرف بھارت کو یوں تو اپنےکثرت میں وحدت ہونے پر فخر ہے۔ لیکن زبان کا تنازع اس دعوے کو جھٹلاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ملک کے اقتصادی دارالحکومت اور سب سے بڑا کاسموپولیٹن شہر ممبئی ہے۔ جہاں مراٹھی قوم پرستی کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والی علاقائی جماعتیں زبان اورعلاقائیت کی آگ بھڑکارہی ہیں ۔
مایہ ناز کرکٹ کھلاڑی سچن تندولکران کا تازہ شکار بن گئے ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ کرکٹ کھلاڑی سچن تندولکرنے اپنے ایک انٹرویو میں صرف یہ کہہ دیا کہ انہیں مراٹھی ہونے پر تو فخر ہی لیکن وہ پہلے ایک بھارتی شہری ہیں اور ممبئی بھارت کا حصہ ہے۔ سچن کے اس بیان پر مراٹھی عوام کے حقوق کی علمبردار ی کا دعوی کرنے والی شدت پسند تنظیم شیو سینا کے سربراہ بالا صاحب ٹھاکرے کافی چراغ پا ہوگئے۔ انہوں نے اپنے اخبار سامنا میں صفحہ اول پر لکھے ایک مضمون میں سچن کو مشورہ دیا کہ وہ کرکٹ کھیلیں سیاست نہ کریں۔
بالاصاحب ٹھاکرے کے اس رویے کی یہاں سیاسی جماعتوں اور بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ یعنی بی سی سی آئی نے سخت نکتہ چینی کی ہے۔ کانگریس پارٹی کے رہنما اور بی سی سی آئی کے سکریٹری راجیو شکلا نے بالاصاحب کے بیان کو غیرضروری قرار دیتے ہوئے کہاکہ’’ سچن نے آخر کون سا جرم کردیا ؟ انہوں نے تو صرف اتنا کہا ہے کہ انہیں مراٹھی ہونے پر فخر ہے لیکن وہ پہلے ایک بھارتی شہر ی ہیں اور اس میں غلط کیا ہے۔ کیا ممبئی بھارت کا حصہ نہیں ہے؟ لیکن شیو سینا اپنے سیاسی فائدے اور تھوڑا ووٹ حاصل کرنے کے لئے اس طرح کی گھٹیا سیاست کررہی ہے۔‘‘
حالانکہ بھارت لسانی اور ثقافتی لحاظ سے کافی مالامال ملک ہے۔ یہاں ہندی کے علاوہ آئین میں 22دیگر زبانوں کو بھی تسلیم کیا گیا ہے جبکہ تقریباً ایک ہزار دیگرغیرتسلیم شدہ زبانیں اور2000 سے زائد لہجے بولے جاتے ہیں۔ تاہم یہ لوگوں کو جوڑنے کے بجائے خلیج بڑھانے کا ذریعہ ثابت ہورہے ہیں۔
پچھلے ہفتے مہاراشٹر اسمبلی میں ہندی میں حلف اٹھانے کی پاداش میں سماج وادی پارٹی کے رکن ابوعاصم اعظمی کی مہاراشٹر نونرمان سینا کے اراکین نے پٹائی کردی تھی۔ مہاراشٹر نو نرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے بالاصاحب ٹھاکرے کے بھتیجے ہیں اورشیو سینا میں مناسب مقام نہیں ملنے پر ناراض ہوکرعلیحدہ تنظیم بنالی تھی۔
مراٹھی ووٹروں میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لئے وہ اکثر غیرمراٹھی اور بالخصوص شمالی بھارتیوں کو اپنے تشدد کا نشانہ بناتی رہی ہے۔ شیو سینا مہاراشٹر نونرمان سینا کی ان حرکتوں کی بالعموم تائید کرتی رہی ہے۔ یہ دونوں جماعتیں سرکاری اداروں کے علاوہ غیرسرکاری کمپنیوں کو بھی اس بات کے لئے مجبور کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں کہ ریاست میں ملازمتوں میں صرف مہاراشٹر کے لوگوں یا مراٹھی بولنے والوں کو جگہ دی جائے۔ حالانکہ بھارتی قانون اپنے شہریوں کو ملک کی کسی بھی جگہ رہنے‘ اپنی پسند کا زبان بولنے اور ملازمت حاصل کرنے کی اجازت دےتا ہے۔ لیکن شیو سینا کے رہنما سنجے راوت کہتے ہیں کہ لوگ تمل ناڈو یا کرناٹک اسمبلی میں وہاں کی مقامی زبانوں کے علاوہ دوسری زبان بولنے پراصرار کیوں نہیں کرتے۔’’ کیا قانون صرف مہاراشٹر کے لئے ہے؟‘‘
اپنی پسندیدہ زبان میں اسمبلی میں حلف لینے پر ہنگامہ آرائی صرف مہاراشٹر تک ہی محدود نہیں ہے۔ اترپردیش اسمبلی میں بھی 13 سال قبل اس وقت ایسا ہی واقعہ رونما ہوا تھا جب دو ممبران اسمبلی نے اردو میں حلف لینے کا مطالبہ کردیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں اراکین کا تعلق بھی ابوعاصم اعظمی کی طرح سماج وادی پارٹی سے تھا۔ حالانکہ اترپردیش میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے اس کے باوجود مذکورہ دونوں ممبران اسمبلی کو اردو میں حلف لینے کی اجازت نہیں ملی بالآخر کئی دنوں کے بعد یہ تنازع اس وقت حل ہوا جب سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو کے کہنے پر دونوں اراکین نے ہندی زبان میں حلف لیا۔
اسی دوران متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت کی حلیف ڈی ایم کے پارٹی کے رہنما اور کیمکلز اور فرٹائلزر کے مرکزی وزیر ازاگری نے لوک سبھا کے اسپیکر کو ایک خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ انہیں ایوان میں صرف تمل زبان میں ہی بولنے اور سوالوں کے جواب دینے کی اجازت دی جائے کیوں کہ وہ ہندی یا انگریزی نہ تو بول سکتے ہیں اور نہ ہی سمجھ سکتے ہیں۔
رپورٹ: افتخار گیلانی
ادارت : عدنان اسحاق