بھارتی صحافت خطرے میں ہے، صدیق کپّن
15 فروری 2023ہلکے سبز رنگ کی جیکٹ میں ملبوسبھارتی صحافی صدیق کپّن نے دو فروری کو جیل سے باہر نکلتے ہی بے تابی سے اپنی بیوی اور بیٹے کو گلے سے لگا لیا۔ انہیں 846 دن جیل میں گزارنے کے بعد رہائی نصیب ہوئی۔کپّن کو اکتوبر 2020ء میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا، جب وہ ریاست اتر پردیش کے ہاتھرس ضلع میں ایک نوجوان دلت خاتون کی اجتماعی عصمت دری اور قتل کیس کی رپورٹنگ کے لیے جا رہے تھے۔ اس واقعے کے خلاف بھارت میں بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تھا۔
صحافی صدیق کپّن پر بغاوت، منی لانڈرنگ اور مجرمانہ سازش کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ وہ ان صحافیوں میں سے ایک تھے، جنہیں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت حراست میں لیا گیا تھا، جو بھارت میں انسداد دہشت گردی کا ایک سخت قانون ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کپّن نے بتایا، ''مجھے جیل میں ایک اخبار پڑھ کر معلوم ہو ا کہ مجھ پر یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ میں نے فوری طور پر یہ سوچ کر حالات کے سامنے ہتھیار ڈال دیے کہ میں اب کم از کم پانچ سال جیل میں رہوں گا۔‘‘ بھارتی سپریم کورٹ نے کپن کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیتے ہوئے ان کی قید کی مدت کو طوالت کا نوٹس لیتے ہوئے قرار دیا،''ہر شخص کو آزادی اظہار کا حق ہے۔‘‘
یو اے پی اے کیا ہے؟
یو اے پی اے پہلی بار 2008 میں متعارف کرایا گیا تھا، جس کا مقصد مختلف تنظیموں کو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے روکنا تھا۔ 2019ء میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے قانون میں اس قانون میں ترمیم کی۔ اس ترمیم کے تحت قانون نافذ کرنے والے حکام کو عدالت میں جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی لوگوں کو ''دہشت گرد‘‘کے قرار دینے کا مکمل اختیار دیا گیا۔
قانون کی سخت نوعیت اس حقیقت پر منحصر ہے کہ اگر یو اے پی اے کے تحت فرد جرم عائد کی جائے تو ملزم کے لیے ضمانت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ مقدمے کی کارروائی تک پہنچنے کے عمل کو اپنے آپ میں ایک سزا بنا دیتا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلاء، صحافیوں اور حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے سابق ججوں نے اس قانون کے تحت آزادی اظہار کے بنیادی حق کو کمزور کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے یو اے پی اے میں ترمیم کے متعدد مطالبات سامنے آئے ہیں۔
سپریم کورٹ کی ایک سینئر وکیل ریبیکا جان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ، ''یہ عمل سخت اور بھارتی آئین کی روح کے خلاف ہے اور خاص طور پر صحافت کے اس وصف کے خلاف ہے جو کہ کبھی خاموش نہیں رہنا ہے۔‘‘
2021 میں کشمیر میں انسانی حقوق کے ایک کارکن خرم پرویز کی گرفتاری کے بعد اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ بھارت کی جانب سے انسداد دہشت گردی کے قوانین کا استعمال ''تشویش ناک‘‘ ہے اور ''سینکڑوں لوگ آزادی اظہار کے اپنے حق کا استعمال کرنے کی وجہ سے نظر بند ہیں۔‘‘ انتہائی دباؤ کے باوجود بھارتی وزارت داخلہ نے واضح کر دیا ہے کہ یو اے پی اے میں کسی ترمیم پر غور نہیں کیا جا رہا ہے۔
صحافت خطرے میں ہے، کپّن
کپّن کا صحافتی کام 2013 سے ان لوگوں کے مقدمات، کہانیوں اور خاندانوں پر مرکوز تھا، جن پر یو اے پی اے کے تحت الزامات عائد کیے گئے تھے۔ کپّن نے کہا کہ وہ یہ جان کر ''حیران نہیں ہوئے‘‘ کہ ان پر خود اس قانون کے تحت الزام عائد کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''میں ایک صحافی ہوں اور میں ایک مسلمان ہوں۔ میں یو اے پی اے کے لیے بہترین ہدف ہوں۔ یہ قانون ایک سیاسی آلہ ہے۔‘‘
تاہم، انہوں نے مزید کہا، وہ حیران تھے کہ وہ ''اتنی جلد‘‘ ضمانت پر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''میں یقین نہیں کر سکتا کہ یو اے پی اے کے تحت فرد جرم عائد کیے جانے کے باوجود میں ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ صرف میڈیا کے دباؤ، وکالت کی وجہ سے ہوا اور ہاں، مجھے اب بھی ہماری سپریم کورٹ پر بھروسہ ہے۔‘‘ کپّن نے جیل سے رہائی کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا،''بھارت میں صحافت خطرے میں ہے۔‘‘
حالیہ برسوں میں یو اے پی اے کے تحت کئی دیگر صحافیوں پر الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن میں کشمیری صحافی فہد شاہ اور آصف سلطان، فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرہ اور صحافی شیام میرا سنگھ سمیت دیگر شامل ہیں۔
نِدھی سُریش، نئی دہلی ( ش ر ⁄ ع ت)