بھارت میں ماؤنوازوں کے خلاف بڑی کارروائی
22 مارچ 2010مرکزی داخلہ سکریٹری جی کے پلائی نے آپریشن گرین ہنٹ نامی اس آپریشن کے شروع ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک صبر آزما جنگ ہے اور نتائج کے حصول میں سات سے دس سال لگ سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت کے 626 اضلاع میں سے 220 میں ماؤ باغی سرگرم ہیں جب کہ 32 اضلاع پرعمالاً ان کا کنٹرول ہے۔ انہوں نے کہا کہ بائیں بازو کے انتہاپسند بندوق کی طاقت کے ذریعہ 2050 تک ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔
وزیر داخلہ پی چدمبرم نے اسے پاکستان سے سرگرم انتہاپسندوں کی مقابلے زیادہ خطرناک قرار دیا اور کہا کہ یہ قومی سلامتی کےلئے زبردست خطرہ ہے۔ گذشتہ ایک سال کے دوران ماؤنوازوں کے حملوں میں گیارہ سو افراد مارے جاچکے ہیں۔ وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ بھی بائیں بازو کی انتہاپسندی کو داخلی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ قرا ردے چکے ہیں۔ دوسری جانب باغیوں کا دعوی ہے کہ وہ قبائلیوں‘ غریبوں اور زمین سے محروم کسانوں کے حقوق کی لڑائی لڑر ہے ہیں۔
یہاں حقوق انسانی کے معروف کارکن گوتم نولکھا نے آپریشن گرین ہنٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ فوجی کارروائی صرف انہیں علاقوں میں شروع کی گئی ہے جہاں حکومت نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ کان کنی کے معاہدے کئے ہیں۔ ”یہ فوجی کارروائی وہاں نہیں ہورہی ہے جہاں ماؤنواز سرگرم ہیں بلکہ یہ مخصوص طور پر صرف انہیں علاقوں میں شروع کی گئی ہے جہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے حکومت کے ساتھ معدنیات کے کان کنی کے معاہدے کئے ہیں اور حکومت کو لگتا ہے کہ ان علاقوں سے ماؤنوازوں کو نکال باہر کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے“۔
وزیر داخلہ پی چدمبرم نے ماؤنوازوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ قانون و انتظام کو برقرار رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ خیال رہے کہ آپریشن گرین ہنٹ پریہاں تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان اتفاق رائے ہے حتی کہ بائیں بازو کی جماعتیں بھی حکومت کے فیصلے کی حمایت کررہی ہیں۔ تاہم گوتم نولکھا کا کہنا ہے کہ صرف یہی تین بڑی پارٹیاں بھارت کے ایک ارب سے زیادہ عوام کی نمائندگی نہیں کرتی ہیں۔”یہ ایک مصنوعی اتفاق رائے ہے جو تین پارٹیوں کانگریس‘ بھارتیہ جنتا پارٹی اور مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے درمیان ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ یہ تین پارٹیاں اور کارپوریٹ میڈیا ماؤ نوازوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی باتیں کررہا ہے“۔
خیال رہے کہ حکومت نے باغیوں کو ہتھیارڈالنے اوربات چیت کی دعوت دی تھی لیکن ماؤ نوازوں نے اسے ٹھکرا دیا۔ حقوق انسانی کے کارکن گوتم نولکھا کا خیال ہے کہ بات چیت اور فوجی کارروائی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ” سرکار کا اپنا نقطہ نظر صاف نظر نہیں آتا ہے ‘ ایک طرف تو آپ کسی کو بات کے لئے بلارہے ہیں دوسری طرف اس کے خلاف زبردست فوجی کارروائی شروع کر رہے ہیں ایسے میں کوئی بھی بات چیت کے لئے کیسے آمادہ ہوسکتا ہے۔ حکومت کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ وہ مذاکرات کے سلسلے میں کتنی مخلص ہے“۔
اس دوران ماونوازوں نے دھمکی دی ہے کہ اگرحکومت انہیں نشانہ بناتی رہی تو وہ بڑے پیمانے پر پرتشدد حملے شروع کردیں گے۔ اس دوران باغیوں نے مغربی بنگال میں ایک ریلوے لائن پر دھماکہ سے تباہ کردیا جب کہ مشرقی ریاست جھارکھنڈ میں ایک پل کو اڑا دیا۔
رپورٹ: افتخار گیلانی
ادارات: عدنان اسحاق