1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں مرد پنڈتوں کی اجارہ داری ختم!

15 مئی 2010

بھارت میں صدیوں سے مرد پنڈت مذہبی رسومات کی ادائیگی کا کام انجام دیتے رہے ہیں لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ اب بھارتی شہر پونے میں خواتین کو یہ تربیت فراہم کی جارہی ہے کہ کس طرح وہ پنڈت بن سکیں گی۔

https://p.dw.com/p/NOa7
تصویر: AP

پونے میں بعض خواتین نے بطور پنڈت کام کرنا شروع بھی کردیا ہے۔ یہاں ایک تربیتی مرکز میں اس وقت 20 ہندوخواتین زیر تربیت ہیں جن میں سے بیشتر کی عمریں 40 اور 65 سال کے درمیان ہیں۔ ان کوسنسکرت زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کو تربیت دینے والی خاتون استاد اور محقق آریا جوشی بہت خوش ہیں کہ یہ خواتین معاشرے میں بااعتماد انداز میں اپنا کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عورتیں مندروں میں نہیں بلکہ  گھروں میں ہی مذہبی رسومات ادا کرتی ہیں البتہ خواتین موت سے متعلق ‌مذہبی رسومات ادا نہیں کرتیں۔

  آریا جوشی کہتی ہیں کہ ہندومذہب نے کبھی بھی خواتین کو یہ رسومات اداکرنے سے منع نہیں کیا لیکن اس معاشرے میں مردوں کی اجارہ داری کی وجہ سے خواتین آگے نہیں آئیں۔ ان کے خیال میں مسئلہ کی بنیاد یہ ہے کہ لوگوں کو علم نہیں کہ آج سے پانچ ہزار سال پہلے بھی یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے۔ ان کے مطابق صرف 25 فیصد لوگ ایسے ہیں جو عورت کو بطور پنڈت تسلیم نہیں کرتے۔

Sonnenfinsternis Asien Indien Sonne Flash-Galerie
مرد پنڈتوں کی جانب سے خواتین کے اس پیشے میں آنے کی مخالفت کی جارہی ہےتصویر: AP

35 سالہ بھارتی خاتون پردنیا پاٹیل نے صدیوں پرانی اس روایت کو توڑتے ہوئے مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لئے ایک عورت کو اپنے گھر مدعو کیا۔ پاٹیل کا خیال ہے کہ خاتون پنڈت، مرد پنڈتوں کے مقابلے میں بہتر اس لئے ہوتی ہے کیونکہ کہ یہ مردوں کے مقابلے میں پانچ گنا کم وقت میں ساری رسومات ادا کر دیتی ہے۔ پاٹیل کہتی ہیں کہ خواتین پنڈتوں کا خلوص اور اپنے کام میں لگن دیکھ کر  اب توان کے والد، جو ایک قدامت پسند ہندو ہیں،  بھی عورت پنڈت کے حق میں ہو گئے ہیں۔

پردنیا پاٹیل کے گھر میں فرش پر بیٹھی ہوئی عورت چترا للی نے مقامی زبان ’مراٹھی‘ میں یہ رسومات ادا کی اور ان کا لباس روایتی پنڈتوں والا نہیں تھا بلکہ وہ ایک خوبصورت ساڑھی زیب تن کئے ہوئے تھیں۔ یہ 41 سالہ خاتون پنڈت ،جو ایک نوجوان لڑکی کی ماں بھی ہے، اب ہر طرح کی رسومات  جیسے شادی اور دیگر تہواروں میں بھی رسومات کی ادائیگی کا کام انجام دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مختصر وقت میں سارا عمل مکمل کر دیتی ہیں اور وہ لوگوں کومسلسل اپنی طرف متوجہ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں اس لئے لوگ اور خصوصاً نوجوان نسل  انہیں بہت  پسند کرتی ہے۔

بھارت کے ہندومعاشرےمیں عورت کے بطور پنڈت مذہبی رسومات ادا کرنے کے حوالے سے ملا جلا رد عمل سامنے آرہا ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں بھارتی معاشرے میں اس بات کی گنجائش نہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ اس میں قباحت بھی نہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا کہ مرد پنڈتوں کی طرف سے اس عمل کوتنقید کا نشانہ بنائے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے ان کاکام متا ثر ہو رہا ہے اس لئے کہ یہی ان کی کمائی کا ذریعہ ہے۔

Sonnenfinsternis in Asien Flash-Galerie
بھارتی خواتین دریائے گنگا میں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے دوران سورج گرہن کو دیکھتے ہوئےتصویر: AP

خواتین پنڈتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئےایک چالیس سالہ پنڈت پندھارپورے کا کہنا ہے کہ  بعض اوقات انہیں بہت مشکل سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور عورتیں ان سوالات کے جوابات نہیں دے سکتیں۔ لیکن دوسری طرف خاتون پنڈت منیشا شیٹی اپنے کام کو بہت دلچسپ قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ آجکل وہ شادیوں کی بہت سی رسومات انگریزی زبان میں ادا کر رہی ہیں کیونکہ بھارت کے  بہت سے شہری غیر ملکی لڑکیوں سے شادیا ں کر رہے ہیں۔

’’بیرونی ممالک میں رہنے والے بھارتی شہری یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے مذہبی روایات کے بارے میں آگاہی دیں لیکن وہ چونکہ ’مراٹھی‘ زبان نہیں سمجھتے اس لئے ان لوگوں کو انگلش میں سمجھانے کا کام بھی میرے ذمے ہے‘‘۔

رپورٹ : بخت زمان

ادارت : شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں