بھارت میں مرد پنڈتوں کی اجارہ داری ختم!
15 مئی 2010پونے میں بعض خواتین نے بطور پنڈت کام کرنا شروع بھی کردیا ہے۔ یہاں ایک تربیتی مرکز میں اس وقت 20 ہندوخواتین زیر تربیت ہیں جن میں سے بیشتر کی عمریں 40 اور 65 سال کے درمیان ہیں۔ ان کوسنسکرت زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کو تربیت دینے والی خاتون استاد اور محقق آریا جوشی بہت خوش ہیں کہ یہ خواتین معاشرے میں بااعتماد انداز میں اپنا کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عورتیں مندروں میں نہیں بلکہ گھروں میں ہی مذہبی رسومات ادا کرتی ہیں البتہ خواتین موت سے متعلق مذہبی رسومات ادا نہیں کرتیں۔
آریا جوشی کہتی ہیں کہ ہندومذہب نے کبھی بھی خواتین کو یہ رسومات اداکرنے سے منع نہیں کیا لیکن اس معاشرے میں مردوں کی اجارہ داری کی وجہ سے خواتین آگے نہیں آئیں۔ ان کے خیال میں مسئلہ کی بنیاد یہ ہے کہ لوگوں کو علم نہیں کہ آج سے پانچ ہزار سال پہلے بھی یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے۔ ان کے مطابق صرف 25 فیصد لوگ ایسے ہیں جو عورت کو بطور پنڈت تسلیم نہیں کرتے۔
35 سالہ بھارتی خاتون پردنیا پاٹیل نے صدیوں پرانی اس روایت کو توڑتے ہوئے مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لئے ایک عورت کو اپنے گھر مدعو کیا۔ پاٹیل کا خیال ہے کہ خاتون پنڈت، مرد پنڈتوں کے مقابلے میں بہتر اس لئے ہوتی ہے کیونکہ کہ یہ مردوں کے مقابلے میں پانچ گنا کم وقت میں ساری رسومات ادا کر دیتی ہے۔ پاٹیل کہتی ہیں کہ خواتین پنڈتوں کا خلوص اور اپنے کام میں لگن دیکھ کر اب توان کے والد، جو ایک قدامت پسند ہندو ہیں، بھی عورت پنڈت کے حق میں ہو گئے ہیں۔
پردنیا پاٹیل کے گھر میں فرش پر بیٹھی ہوئی عورت چترا للی نے مقامی زبان ’مراٹھی‘ میں یہ رسومات ادا کی اور ان کا لباس روایتی پنڈتوں والا نہیں تھا بلکہ وہ ایک خوبصورت ساڑھی زیب تن کئے ہوئے تھیں۔ یہ 41 سالہ خاتون پنڈت ،جو ایک نوجوان لڑکی کی ماں بھی ہے، اب ہر طرح کی رسومات جیسے شادی اور دیگر تہواروں میں بھی رسومات کی ادائیگی کا کام انجام دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مختصر وقت میں سارا عمل مکمل کر دیتی ہیں اور وہ لوگوں کومسلسل اپنی طرف متوجہ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں اس لئے لوگ اور خصوصاً نوجوان نسل انہیں بہت پسند کرتی ہے۔
بھارت کے ہندومعاشرےمیں عورت کے بطور پنڈت مذہبی رسومات ادا کرنے کے حوالے سے ملا جلا رد عمل سامنے آرہا ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں بھارتی معاشرے میں اس بات کی گنجائش نہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ اس میں قباحت بھی نہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا کہ مرد پنڈتوں کی طرف سے اس عمل کوتنقید کا نشانہ بنائے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے ان کاکام متا ثر ہو رہا ہے اس لئے کہ یہی ان کی کمائی کا ذریعہ ہے۔
خواتین پنڈتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئےایک چالیس سالہ پنڈت پندھارپورے کا کہنا ہے کہ بعض اوقات انہیں بہت مشکل سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور عورتیں ان سوالات کے جوابات نہیں دے سکتیں۔ لیکن دوسری طرف خاتون پنڈت منیشا شیٹی اپنے کام کو بہت دلچسپ قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ آجکل وہ شادیوں کی بہت سی رسومات انگریزی زبان میں ادا کر رہی ہیں کیونکہ بھارت کے بہت سے شہری غیر ملکی لڑکیوں سے شادیا ں کر رہے ہیں۔
’’بیرونی ممالک میں رہنے والے بھارتی شہری یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے مذہبی روایات کے بارے میں آگاہی دیں لیکن وہ چونکہ ’مراٹھی‘ زبان نہیں سمجھتے اس لئے ان لوگوں کو انگلش میں سمجھانے کا کام بھی میرے ذمے ہے‘‘۔
رپورٹ : بخت زمان
ادارت : شادی خان سیف