بھارت میں میڈیا پرسرکاری کنٹرول
14 جنوری 2009بھارت کے اقتصادی دارالحکومت ممبئی میں گذشتہ نومبر میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں اور سیکورٹی کارروائیوں کو ٹی وی نیوز چینلوں نے تقریباََ ساٹھ گھنٹوں تک جس طرح براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا اس کے بعد مختلف حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ زورپکڑنے لگا کہ ان نیوز چینلوں کی نکیل کسنا ضروری ہے۔ جس کے بعد حکومت نے کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک ایکٹ میں ترمیم کرنے کا اعلان کیا۔ ٹی وی نیوز چینلوں کے مدیران نے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ سے ملاقات کی اور معاملے میں مداخلت کی اپیل کی جس کے بعد ڈاکٹر سنگھ نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ کوئی بھی حتمی قدم اٹھانے سے پہلے تمام فریقین سے صلاح و مشورہ کیا جائے گا۔ دہلی یونین آف جرنلسٹس کے صدر ایس کے پانڈے نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ ٹی وی نیوز چینلوں نے ممبئی حملوں کو جس طرح براڈ کاسٹ کیا وہ یقیناََ قابل اعتراض تھا ۔ انہوں نے کہا کہ یونین نے اس کی نکتہ چینی بھی کی اور پوری رپورٹنگ کا تجزیاتی جائزہ بھی لیا۔ لیکن مسئلے کے حل کے لئے ضروری ہے کہ اس پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے۔
بھارت میں پریس کو جمہوریت کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے جب حکومت میڈیا پرکنٹرول کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ البتہ اس مرتبہ عوامی سطح پر اس کی مخالفت اتنی شدت کے ساتھ نہیں کی جارہی ہے جس طرح سابقہ مواقع پرکی جاتی رہی ہے۔ یہاں ایک حلقے کا کہنا ہے کہ نیوز چینل اپنی ٹی آر پی ریٹنگ بڑھانے کے لئے بعض اوقات جن حدود کو پار کرجاتے ہیں اس کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ شائد اسی لئے ٹی وی چینلوں کے مالکان یا عہدیدار اس بار دفاعی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے کام کاج پر کنٹرول کے لئے خود ہی کئی اقدامات کئے ہیں اوراس سلسلے میں ایک باڈی بھی بنارکھی ہے لیکن ڈی یو جے کے صدر ایس کے پانڈے کا خیال ہے کہ یہ محض دکھاوا ہے اور جلد بازی میں جو باڈی بنائی گئی تھی وہ دراصل قانونی گرفت سے اپنی بچاو کے لئے ہے۔
کیبل ٹی وی نیٹ ورک ایکٹ میں مجوزہ ترمیم کے مطابق ضلع مجسٹریٹ‘ سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور پولیس کمشنر کے پاس اس بات کے اختیارات ہوں گے کہ قومی یا عوامی مفاد کے پیش نظر وہ کسی چینل کے براہ راست ٹیلی کاسٹ کو روک دیں اور ٹیلی کاسٹ کے لئے جو آلات استعمال کئے جارہے ہیں انہیں ضبط کرلیں۔ ایمرجنسی حالات میں حکومت خود ہی فوٹیج فراہم کرے گی۔ نیوز چینلوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ وہ فرقہ وارانہ فسادات‘ مظاہروں اورتصادم وغیرہ کی تصویریں براہ راست ٹیلی کاسٹ نشر نہیں کرسکیں گے۔ مزید یہ کہ حکومت کو اس بات کا بھی اختیار ہوگا کہ مفاد عامہ کے پیش نظر کسی نیوز کو Repeat Telecast کرنے سے روک دے۔ اس کے علاوہ جن امور کو قومی اہمیت کا حامل سمجھا جائے گا ان سے متعلق فوٹیج کو ایک نگرانی ایجنسی کے پاس بھیجنا ہوگا۔
ٹی وی چینلوں کے ایڈیٹروں نے لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈرلال کرشن ایڈوانی اورسماج وادی پارٹی کے جنرل سکریٹری امرسنگھ سے ملاقات کی۔ لیکن ان دونوں رہنماوں نے انہیں مشورہ دیا کہ ٹی وی چینلوں کواپنے لئے ایک حدودکار متعین کرنا چاہئے۔ انہیں اپنے لئے خود ضابطے طے کرنے چاہئے اور پریس کی آزادی کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ اسی دوران بائیں بازو کی جماعت سی پی آئی کے جنرل سکریٹری پرکاش کرات نے وزیر اعظم کو ایک خط لکھ کر کہا ہے کہ ٹی وی نیوزچینلوں پر نگرانی کے لئے ایک آزاد باڈی ہونی چاہئے اور حکومت کو اپنی طرف سے کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہئے۔
دریں اثنا حکومت نے ایک اہم فیصلے میں غیرملکی اخبارات کے Fascimile Edition کے لئے بھارت میں صد فیصد غیرملکی سرمایہ کاری کی اجازت دے دی۔