بھارت میں ’چھوٹا پاکستان‘ کیسے بنا؟
25 جولائی 2017فروری سن دوہزار دو میں بھارتی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں ملکی تاریخ کے بد ترین ہندو مسلم فسادات شروع ہونے سے کچھ ہی دیر پہلے کی بات ہے جب کم عمر شاہجہاں بانو اپنی والدہ کے ساتھ سبزیاں فروخت کرنے بازار گیا تھا۔
فسادات شروع ہونے کے بعد کئی روز تک بلوائیوں کے جتھے شہر میں لوٹ مار کرتے رہے۔ گھر جلائے گئے، دکانیں لوٹی گئیں، خواتین کو ریپ کیا گیا اور مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل ہوا۔ ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی۔
بانو اور اُس کی ماں پہلی رات مارکیٹ میں ہی چھپے رہے۔ اگلے روز انہیں ایک امدادی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا جہاں دیگر مسلمان بھی اپنے گھروں اور خاندان والوں کی خبر ملنے کے منتظر تھے۔ تقریباﹰ ایک ماہ کے بعد بانو اور اُس کی والدہ اپنے گھر والوں سے مل سکے اور آٹھ ماہ بعد انہیں اس کیمپ سے سٹیزن نگر نامی ایک عارضی بستی منتقل کر دیا گیا جو ایک مسلم فلاحی تنظیم نے فسادات میں بے گھر ہونے والے افراد کے لیے عجلت میں تیار کی تھی۔
آج پندرہ سال گزرنے کے بعد بھی بانو اور اُس کا خاندان اسی گھر میں ہیں۔ مکھیوں اور بدبو دار ماحول میں بنا بانو کا دو کمروں کا گھر اس خاندان کے لیے غنیمت ہے۔ بانو اب تیئیس برس کا نوجوان ہے۔
بانو کہتا ہے ،’’ فسادات میں ہم نے سب کچھ کھو دیا۔ ہم شکر گزار ہیں کہ ہمیں رہنے کو چھت ملی۔ لیکن اس گھر میں ہم روز تھوڑا تھوڑا مرتے ہیں۔ دھواں، بدبو، کوڑا۔ ان سب کے ساتھ رہنا مصیبت ہے۔ ہم نے بہت چاہا کہ یہاں سے کہیں چلے جائیں لیکن آخر کہاں جائیں؟‘‘
فسادات میں گجرات کے قریب دو لاکھ خاندان بے گھر ہوئے تھے، جن میں زیادہ تر مسلمان خاندان تھے۔ کچھ لوگ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے اور کچھ لوگوں کو مسلم علاقوں میں نئے گھر الاٹ ہوئے۔ مسلم چیریٹی تنظیموں نے بھی تقریباﹰ 17،000 مسلمانوں کو گجرات کی اسّی کالونیوں میں بسایا۔ آج گجرات مذہبی لحاظ سے ایک بٹی ہوئی ریاست ہے۔
ہندو مسلم فسادات کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے مسلمان افراد عموماﹰ اپنے گھروں میں لوٹنے سے خوفزدہ رہتے ہیں اور حکومت سے اُنہیں دوسری جگہوں پر گھر الاٹ کرنے کو کہتے ہیں۔ تاہم سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس سے ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتحاد کے بجائے تقسیم بڑھے گی۔
سرکاری اہلکاروں کا موقف اپنی جگہ لیکن تقسیم کی یہ لکیر اتنی گہری ہے کہ احمدآباد کے ایک چھوٹے قصبے جوہا پورا کو جہاں سن دو ہزار دو کے بعد قریب چار لاکھ مسلمان آباد ہوئے، مقامی ہندو ’لٹل پاکستان‘ کہتے ہیں۔ احمدآباد کی مسلم بستیوں میں سب ہی کی صورت حال تقریباﹰ ایک جیسی ہے اور بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔