بھارت میں کورونا متاثرین کی تعداد اب تین لاکھ سے بھی زائد
13 جون 2020بھارت میں ہفتہ تیرہ جون کے روز نئے کورونا وائرس کے مزید 11 ہزار 400 کیسز سامنے آئے۔ ایک دن میں متاثرین کی تعداد میں اتنا بڑا اضافہ پہلی بار ہوا ہے اور اس طرح ملک میں متاثرین کی مجموعی تعداد تین لاکھ آٹھ ہزار 993 ہوگئی ہے۔ اب تک ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد افراد ہلاک بھی ہوچکے ہیں۔ وائرس کے متاثرین کی مجموعی تعداد کے اعتبار سے بھارت اس وقت امریکا، برازیل اور روس کے بعد عالمی سطح پر چوتھے نمبر پر آ چکا ہے۔
نئی دہلی حکومت نے ڈھائی ماہ کے سخت لاک ڈاؤن کے بعد 25 مئی سے بندشوں میں نرمی کا اعلان کیا تھا تاہم تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود کووڈ 19 کی وبا پر اب تک قابو نہیں پایا جا سکا اور متاثرین اور ہلاک شدگان کی تعداد میں کمی کے بجائے روز بروز تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ خاص طور پر جب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی ہے، اس کے بعد سے اوسطاﹰ ہر روز تقریباﹰ دس ہزار نئے کیسز سامنے آرہے ہیں۔
اسی پس منظر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے 16 اور 17 جون کو مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ پھر سے ایک ویڈیو کانفرن میٹنگ کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ بھارت میں ایسی افواہوں کا بازار بھی گرم ہے کہ حکومت ان علاقوں میں ایک بار پھر لاک ڈاؤن پر غور کر رہی ہے، جہاں متاثرین کی تعداد غیر معمولی حد تک زیادہ ہے۔
جن بھارتی ریاستوں میں کورونا وائرس کے کیسز زیادہ تیز رفتاری سے بڑھ رہے ہیں، اس میں مہاراشٹر، دہلی، جنوبی ریاست تامل ناڈو اور گجرات سر فہرست ہیں۔ ریاست مہاراشٹر میں ایک لاکھ ایک ہزار سے زیادہ کیسز ہیں جبکہ تامل ناڈر میں چالیس ہزار سے زیادہ اور دہلی میں اب تک اس وبا سے 36 ہزار 824 افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ ادھر ریاست مغربی بنگال اور اتر پردیش میں بھی یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔
دریں اثنا ملکی سطح پر اپوزیشن کی جماعت کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے کووڈ 19 سے نمٹنے کے حوالے سے مودی حکومت کی اب تک کی پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت کے پاس اس مسئلے نمٹنے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی موجود ہی نہیں۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں متاثرین کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’مخبوط الحواسی بار بار ایک ہی کام کر رہی ہے اور مختلف نتائج کی امید لگائے بیٹھی ہے۔‘‘
راہول گاندھی نے اپنی ٹویٹ کے ساتھ کچھ گرافکس بھی شیئر کی ہیں، جن میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ جیسے جیسے بھارت میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کی گئی، ویسے ویسے متاثرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہی ہوتا گيا۔ بعض گرافکس میں جرمنی، برطانیہ، اٹلی اور اسپین کے ساتھ تقابلی جائزہ لیتے ہوئے یہ دکھایا گیا ہے کہ ان ممالک نے اپنے ہاں لاک ڈاؤن میں نرمی اس وقت کی، جب وہاں کورونا وائرس کے نئے کیسز کی تعداد میں کافی کمی ہونے لگی تھی۔ لیکن بھارتی حکومت نے اس کے برعکس لاک ڈاؤن کو اس وقت ختم کیا جب ملک میں کورونا وائرس کی وبا تیزی سے پھیلنا شروع ہوئی۔
حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت پر یہ الزام لگاتی رہی ہیں کہ اس وبا سے نمٹنے کے لیے مودی حکومت نے کوئی تیاری نہیں کی تھی اور تین ماہ گزرنے کے بعد بھی صحت کا نظام پوری طرح درہم برہم ہے۔ ان پارٹیوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے مغربی دنیا کی نقل کرتے ہوئے اس وقت اچانک لاک ڈاؤن نافذ کر دیا، جب ملک میں صرف 500 کیسز تھے اور اس وقت اسے ہٹانے کا فیصلہ کیا گيا جب انفیکشن کی شرح تیزی سے بڑھ رہی تھی اور متاثرین کی تعداد دو لاکھ کے قریب ہو چکی تھی۔
لاک ڈاؤن کے اچانک کیے گئے حکومتی فیصلے سے مختلف بھارتی ریاستوں میں ہزارہا کارکن پھنس کر رہ گئے اور کروڑوں داخلی مہاجر مزدوروں کا ذریعہ معاش چھن گيا۔ بھوکے پیاسے مزدوروں نے بڑے پیمانے پر شہروں سے اپنے آبائی علاقوں کی طرف سفر شروع کیا۔ لیکن چونکہ آمد و رفت کا کوئی ذریعہ دستیاب ہی نہیں تھا، اس وجہ سے بہت سے لوگ سینکڑوں میل پیدل، سائیکلوں پر یا پھر رکشوں میں سوار ہوکر طویل سفر کر کے اپنے اپنے گھروں کو پہنچے تھے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور اب تک ایسے درجنوں افراد مختلف حادثات میں ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔