بھارت: نومولود بچیوں کے قتل رک نہیں پا رہے
18 اپریل 2012آفرین کو ابھی اس دنیا میں آئے ہوئے صرف تین ماہ ہی گزرے تھے کہ اسے شدید بیماری کی حالت میں جنوبی بھارت کے ایک ہسپتال لایا گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ڈاکٹروں نے اعلان کیا کہ اس ننھی بچی کے دل نے کام کرنا بند کر دیا ہے اور وہ انتقال کر گئی۔ تاہم بتایا گیا ہے کہ آفرین کے جسم پر مار پیٹ کے نشان نمایاں تھے۔ پولیس نے بچی پر تشدد کرنے کے الزام میں اس کے 25 سالہ والد کو گرفتار کر لیا ہے۔ آفرین کی والدہ نے پولیس کو بتایا کہ اس کا شوہر چاہتا تھا کہ اُن کے ہاں لڑکا ہو۔’’جیسے ہی آفرین پیدا ہوئی تو وہ سخت ناراض ہو گئے‘‘۔ بنگلور پولیس نے ملزم کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔
اس سے قبل مارچ میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ایک لڑکی کو سر کی چوٹ کے ساتھ ہسپتال داخل کیا گیا۔ اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بھی ایک ’’ ان چاہی‘‘ لڑکی تھی۔ اسی طرح گزشتہ منگل کے روز امرتسر سے اس شخص کو گرفتار کیا گیا، جس پر الزام ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو گلا گھونٹ کر ہلاک کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لڑکے کی خواہش کے باوجود اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی۔ ہلاک کی جانے والی خاتون کے بھائیوں نے بتایا ’’ہم نے بہت کوشش کی کہ اس کو سمجھائیں کہ اولاد کی جنس کا تعین کرنا انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے اور لڑکی بھی خدا کا تحفہ ہے مگر وہ ہماری یہ درخواست سننے پر تیار نہیں تھا ‘‘۔
بھارت میں حمل کے دوران بچے کی جنس معلوم کرنے پر پابندی ہے۔ اس وجہ سے بہت سی لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ تاہم حالیہ ہلاکتوں کے بعد ملک میں اس موضوع کے حوالے سے ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ مختلف حلقوں کا خیال ہے کہ جس ملک کی صدر پرتبھا پاٹل ہوں اور حکمران جماعت کی سربراہ سونیا گاندھی ہوں اس ملک میں بچیوں کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جانے چاہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق بھارت خواتین کے لیے خطرناک ترین ملک ہے۔ فروری میں اس عالمی ادارے کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار سے واضح ہوا ہے کہ بھارت میں ایک سے پانچ سال تک کی لڑکیوں میں اموات کی شرح اسی عمر کے لڑکوں کے مقابلے میں 73 فیصد زیادہ ہے۔
ai/aa( DPA)