بھارت: پانچ مزید خواتین جادوگرنیاں قرار دے کر قتل
8 اگست 2015مختلف خبر رساں اداروں کی متفقہ رپورٹوں کے مطابق یہ واقعہ ریاستی دارالحکومت رانچی سے پینتالیس کلومیٹر دور پیش آیا۔ پولیس نے ان خواتین کے قتل کے الزام میں دو درجن افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
فون پر اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے رانچی کے ڈپٹی پولیس چیف ارون کمار سنگھ نے بتایا:’’گاؤں والوں کے ایک گروپ نے ان خواتین کو جمعے کو آدھی رات کے وقت اُن کی جھونپڑیوں سے گھسیٹ کر باہر نکالا، اُنہیں جادو ٹونے کرنے کے لیے قصور وار قرار دیا اور پھر لکڑی کے ڈنڈے اور چھریاں مار مار کر ان خواتین کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔‘‘
ارون کمار سنگھ کے مطابق 24 دیہاتیوں کو ان خواتین کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ مرنے والی خواتین کی عمریں پنتالیس اور پچاس کے درمیان تھیں۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے ایک مقامی پولیس انسپکٹر بندنا باکھلا کے حوالےسے بھی بتایا ہے کہ اس مشتعل ہجوم میں شامل کئی افراد نے اپنے ہاتھوں میں تیز دھار آلات اٹھا رکھے تھے۔
ان حملہ آور افراد نے ان خواتین پر یہ الزام لگایا تھا کہ وہ گاؤں پر آنے والی مصیبتوں کی ذمے دار ہیں اور اُنہی کی وجہ سے گاؤں کے بہت سے لوگ بیمار ہو گئے ہیں۔
بھارت کے غریب پسماندہ علاقوں میں لوگ آج بھی جادو ٹونے پر یقین رکھتے ہیں۔ بہت سے مقامات پر ایسی خواتین کو بے لباس کر کے تشدد کیا جاتا ہے، زندہ جلا دیا جاتا ہے یا پھر گھروں سے گھسیٹ کر باہر لایا جاتا ہے اور مار مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔
چند ایک بھارتی ریاستوں نے، جن میں جھاڑ کھنڈ بھی شامل ہے، اس طرح سے خواتین پر ’جادوگرنیاں‘ ہونے کا الزام لگانے والوں ا ور ایسی خواتین کو حملوں کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف قوانین بھی متعارف کروائے ہیں۔
جھاڑ کھنڈ کے وزیر اعلیٰ نے ہفتہ آٹھ اگست کو اپنے ایک بیان میں اس تازہ واقعے کی مذمت کی ہے اور زور دیا ہے کہ معاشرے کو بھی ایسے واقعات کی ’پُر زور مذمت کرنی چاہیے‘۔ اُنہوں نے اس بیان میں کہا ہے:’’علم و فضل کے اس دور میں اس طرح کا واقعہ بہت ہی افسوس ناک ہے۔‘‘
بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق سن 2000ء سے لے کر 2012ء تک کے عرصے کے دوران کم از کم دو ہزار ایک سو افراد کو جادو ٹونے کے الزام میں قتل کیا گیا، جن میں سے اکثریت خواتین کی تھی۔