بھارت: کسانوں کا احتجاج شدید ہوتا جا رہا ہے
2 دسمبر 2020بھارت میں حالیہ برسوں میں کسانوں کا یہ سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ آج بدھ کے روز ساتویں دن میں داخل ہو گیا۔ ہزاروں کسان دہلی کی نواحی سرحدوں پر جمع ہو گئے ہیں اور انہوں نے وہاں اپنے خیمے گاڑ دیے ہیں۔ صورت حال سے نمٹنے کے لیے وزیر داخلہ امیت شاہ کی متعدد سینیئر وزیروں اور حکام کے ساتھ آج بھی میٹنگیں ہوئیں۔ جمعرات کو وہ ایک بار پھر کسانوں کو منانے کی کوشش کریں گے تاہم کسانوں کا کہنا ہے کہ متنازعہ قوانین واپس لیے جانے تک وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ خواہ اس کے لیے انہیں چھ ماہ تک انتظار ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
تمام اہم قومی شاہراہیں بند
کسانوں کے'دہلی چلو‘ مظاہرے کو روکنے کے لیے تمام حربے ناکام ہوجانے کے بعد مودی حکومت نے منگل کے روز کسانوں سے بات چیت کی لیکن انہیں احتجاجی مظاہرہ ختم کرنے پر آمادہ نہیں کر سکی۔ اسے صرف پنجاب کے کسانوں کے احتجاج کے طور پر پیش کرنے کی حکومت کی حکمت عملی بھی ناکام رہی۔
اس دوران پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں نے دہلی میں داخل ہونے والی سرحدوں کو پوری طرح جام کردیا ہے۔ ان تمام پانچوں سرحدوں پر ہزاروں کسان جمع ہو چکے ہیں۔ جب کہ اترپردیش، ہریانہ اور پنجاب کے مختلف اضلاع نیز ملک کے مختلف حصوں سے کسانوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ حالانکہ بعض مقامات پر انہیں گرفتار کیے جانے کی بھی خبریں موصول ہوئی ہیں۔
کسانوں کے مظاہروں کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں کو قومی دارالحکومت سے جوڑنے والی بیشتر اہم قومی شاہراہیں بند ہوگئی ہیں۔ کورونا کی وجہ سے جو چند ایک ٹرینیں چل رہی تھیں ان میں سے بھی بیشتر کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔
مختلف حلقوں سے حمایت
کسانوں کی اس تحریک کو مختلف حلقوں سے حمایت مل رہی ہے۔ طلبہ تنظیمیں اور ٹرانسپورٹ یونینوں کے بعد اب حکومت کی بعض حلیف جماعتیں بھی کسانوں کی حمایت میں سامنے آ گئی ہیں۔
ہریانہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کی حلیف جن نائک جنتا پارٹی نے کسانوں کو فصلوں کے لیے کم از کم قیمت کی یقین دہانی کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ پارٹی کے رہنما اور ریاستی نائب وزیر اعلی کے والد اجے چوٹالہ نے کہا،''مرکز کو اس حوالے سے ایک سطر لکھ کر دے دینے میں کیا پریشانی ہے۔‘‘
کھلاڑیوں کی جانب سے حمایت
پنجاب سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں نے کسانوں کی حمایت میں آواز بلند کرتے ہوئے کہا کہ اگر مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تو وہ اپنے ایوارڈ واپس کردیں گے۔ ہاکی کے سابق اولمپک کھلاڑی ارجن ایوارڈ یافتہ سجان سنگھ چیمہ نے کہا، ”کسان پچھلے کئی مہینوں سے پرامن احتجاج کر رہے ہیں لیکن ان پر پانی کی تیز دھار کا استعمال کیاگیا، آنسو گیس کے شیل داغے گئے۔ ہم کسانوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے پانچ دسمبر کو دہلی مارچ کریں گے۔"
دادی بھی میدان میں
ٹائم میگزین کی طرف سے سال2020 کی 100اہم شخصیات میں شامل 'شاہین باغ کی دادی‘ کے نام سے مشہور 82 سالہ بلقیس بانو بھی کسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پہنچی تھیں لیکن پولیس نے انہیں فوراً حراست میں لے لیا۔ انہیں بعد میں رہا کردیا گیا۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی کسانوں کی حمایت میں ایک بیان دیا تھا جس پر بھارت نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ دوسری طرف برطانیہ، امریکا اور آسٹریلیا سمیت کئی ملکوں میں متعدد تنظیموں نے بھارتی کسانوں کی حمایت میں سوشل میڈیا پر زبردست مہم چلارکھی ہے۔
کھاپ پنچائیتیں بھی احتجاج میں شامل
ہریانہ کی 130کھاپ پنچائیتوں نے بھی مظاہرین کے ساتھ شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔ کھاپ پنچایتوں کے ترجمان جگبیر ملک نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”ہم سب کسان ہیں اور ہریانہ کے وزیر اعلی کا یہ بیان جھوٹا ہے کہ ہم کسانوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ ہم اس تحریک کے ساتھ ہیں۔"
کھاپ پنچائیتوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے ریاستی اسمبلی انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی بنفس نفیس خود ان کے پاس 'آشیرواد‘ لینے گئے تھے۔
حکومت کی تجویز ٹھکرا دی
وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی قیادت میں حکومت اور کسانوں کے درمیان کل ہونے والی میٹنگ میں کسانوں نے اس معاملے پر غور کرنے کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کی حکومت کی تجویز مسترد کر دی۔
ذرائع کے مطابق کسان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ماضی میں اس طرح کی کمیٹیوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے اور اب کمیٹی قائم کرنے کا وقت نہیں رہا۔ ذرائع کے مطابق میٹنگ کے دوران جب کسان رہنماؤں کو چائے کی پیش کش کی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ یہاں چائے پینے نہیں آئے ہیں۔
ہمارے پاس بہت وقت ہے
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کسانوں کے ساتھ'مول بھاؤ‘ کرنے کے لحاظ سے اس مرتبہ حکومت کی پوزیشن کمزور دکھائی دے رہی ہے۔ گوکہ وزیر اعظم مودی نے قوانین کو واپس لینے یا ان کے نفاذ کو موخر کرنے کے امکان کو یکسر مسترد کردیا ہے لیکن حکومت شاید یہ اندازہ پوری طرح نہیں لگا سکی کہ کسانوں نے فصلیں کاشت کر لی ہیں اور ان کے پاس اس وقت 'آرام کا وقت‘ ہے۔
دہلی کے سنگھو بارڈر پر خیمہ زن ایک کسان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”ہم چاہے گھر پر بیٹھے رہتے چاہے یہاں بیٹھیں۔ ہمارے پاس تو ٹائم ہی ٹائم ہے۔ ہم تو چھ ماہ کا کھانا بھی اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں۔"