بھارت کی اربوں ڈالر کی نيوکلير منڈی
18 اگست 2010پارليمانی کميشن نے اس قانونی بل ميں تبديليوں کی سفارش ميں، حادثات کی صورت ميں معاوضے کی رقم ميں تين گنا اضافہ اور معاوضے کا دائرہ نجی سپلائرز تک وسيع کرنا بھی شامل ہے۔ حکومت نے يہ کميشن، قانونی مسودے کی سياسی مخالفت کے بعد قائم کيا تھا اور اب اس کميشن نے اپنی سفارشات پارليمنٹ کو پيش کردی ہيں۔ اس بل کی منظوری کے بعد امريکی کمپنی جنرل اليکٹرک اور جاپانی فرم توشيبا کی شاخ ويسٹنگ ہاؤس اليکٹرک جيسی فرمز بھارت کی نيوکليئر پاور کی منڈی ميں داخل ہوسکتی ہيں۔کميشن نے سفارش کی ہے کہ کہ نيوکلیئر پاور پلانٹس کو چلانے والے رياستی ادارے پر معاوضے کی ذمے داری کی حد 320 ملين ڈالر مقرر کی جائے۔
اگر کميشن کی ان سفارشات کو بھارتی پارليمنٹ نے منظور کرليا تو اس سے پرائيوٹ فرمز کو زيادہ اخراجات برداشت کرنا پڑيں گے کيونکہ انہيں انشورنس کا زيادہ پريميئم ادا کرنا ہوگا۔ ليکن اس طرح پاليسی واضح ہوجائے گی اور پراجيکٹس تيز رفتاری سے مکمل کئے جاسکيں گے۔
اس قانون کے اصل مسودے ميں ايٹمی بجلی پيدا کرنے کے ری ايکٹر کو چلانے والے رياستی ادارے کی طرف سے معاوضوں کی ادائيگی کی حد تقريباً 110ملين ڈالر مقرر کی گئی تھی اور پرائيويٹ سپلائرز اور ٹھيکے داروں پر معاوضوں کی ادائيگی کی کوئی ذمے داری نہيں ڈالی گئی تھی۔ کميشن نے اپنی رپورٹ ميں لکھا ہے: " نقصانات کی صورت ميں معاوضوں کی کافی رقم اور اس کی جلد ادائيگی کے بارے ميں بھارت کے نظريات کو يقينی بنانے کی کوشش ہے اور اس کا مقصد يہ بھی ہے کہ ملک کی نيوکليئر صنعت پر ضرورت سے زيادہ بوجھ نہ ڈالا جائے تاکہ وہ ترقی کرسکے۔"
يہ قانون ان نجی کمپنيوں کے لئے خاص طور پر اہم ہے، جن پر عائد ہونے والی ذمے داريوں کو فرانس اور روس کے برعکس ان کی حکومتوں کی سرپرستی حاصل نہيں ہے۔ صرف ايک ہی ايٹمی حادثے کے نتيجے ميں معاوضوں کے کليم کسی کمپنی کو ديواليہ کردينے کے لئے کافی ہوسکتے ہيں۔
اس قانونی مسودے کو بھارتی وزير اعظم من موہن سنگھ کی ذاتی حمايت حاصل ہے ۔ سن2008 ميں ان کے اور سابق امريکی صدر جارج بش کے درميان ہونے والے نيو کليئر انرجی کے معاہدے سے عالمی ايٹمی منڈی ميں بھارت کے داخلے کا راستہ کھل گيا تھا۔
بھارتی حکومت نيوکليئر قانون کو جلد منظور کرانے کی خواہاں ہے تاکہ نومبر ميں صدر اوباما کے بھارت کے دورے سے قبل ہی، امريکہ سميت عالمی فرمز کی بھارتی منڈی ميں داخلے کی راہ ہموار ہو جائے۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت : عدنان اسحاق