بھارت کے جارج فلوئڈ، پولیس تحویل میں ہلاکتوں پر احتجاج
28 جون 2020امریکی میں سیاہ فام جارج فلوئڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد بھارت میں پیش آنے والے اس واقعے نے پولیس تشدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے سنگین مسئلے پر دوبارہ روشنی ڈالی ہے۔ اٹھاون سالہ جے جیا راج اور ان کے اکتیس سالہ بیٹے بینکس ایمانویل کو انیس جون کے روز گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اپنی دکان مقررہ وقت کے بعد بھی کھلی رکھی۔
تامل ناڈو میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دکانیں مخصوص اوقات میں ہی کھولنے کی اجازت ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ دونوں چند روز بعد ہسپتال میں انتقال کر گئے تھے جبکہ ان کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ انہیں پولیس نے اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ ان کے جنسی اعضاء سے بھی خون بہہ رہا تھا۔
جے این یو تشدد: پولیس کے کردار پر سوالیہ نشان
ریاستی وزیراعلی ایڈاپاڈی کے پلنی سوامی کا کہنا تھا کہ تشدد میں ملوث دو اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ ان ہلاکتوں کے بعد چھوٹے سے علاقے ستھن کولم میں گزشتہ ہفتے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا جبکہ بدھ کے روز پورے تامل ناڈو میں دکانداروں نے ہڑتال کی تھی۔
بالی ووڈ سٹار پریانکا چوپڑا نے بھی ایک ٹویٹ میں کہا کہ یہ ناقابل یقین ہے، ''یہ حیران، غمگین اور غصے میں ڈال دینے والا واقعہ ہے۔ مجرموں کو ہر حال میں سزا ملنی چاہیے۔‘‘ بھارتی اداکارہ کرسٹل ڈی سوزا نے لکھا ہے، ''جارج فلوئڈ کی طرح ہمیں ان کے لیے بھی انصاف مانگنا چاہیے۔‘‘
'جسم پر کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں تشدد کے نشانات نہ ہوں‘
سوشل ایکٹیوسٹ، وکیل اور سیاستدان جگنیش میوانی نے کہا ہے، ''یہ بہت سوں کے لیے بھارت کے جارج فلوئڈ ہیں۔ لیکن کیا بھارتی بھی ہزاروں امریکیوں کی طرح سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکلیں گے؟‘‘
اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے کہا کہ، ''یہ افسوس ناک ہے کہ آپ کے محافظ ہی ظالموں میں بدل جائیں۔‘‘
انسانی حقوق کے گروپ ماضی میں بھی بھارتی پولیس پر تشدد اور ہلاکتوں کے الزامات عائد کرتے آئے ہیں۔نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار سترہ اور اٹھارہ کے درمیان تین ہزار سے زائد افراد پولیس تحویل کے دوران ہلاک ہوئے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق ایسے کیسز میں شاز و نادر ہی کبھی ملزمان کو سزائیں ملتی ہیں۔
ا ا / ش ج ( اے ایف پی، روئٹرز)